Wednesday, 11 June 2014
میں غلط نہیں تھا مگر...Part 2
جو جادو سر چڑھ کر بولتا ہے وہ کم ہوا تو پتہ لگا کہ میں اپنی مرضی سے اپنے ہمسایوں کے واش روم میں قید ہوں۔ میری زندگی بدل تو گئی تھی اور ان خطوں کی وجہ سے میں ایک حرامزادہ کہلایا جانے والا تھا، لیکن پھر بھی میں یہ سب لطف اس عمر میں نہ لے سکتا اگر میں ویسا ہی ہوتا جیسے میں پہلے تھا۔مجھے لگا کہ ان خطوں نے مجھے زندگی کی اصل خوشیوں سے ہمکنار کرنا شروع کر دیا تھا۔اگر سب صحیح رہتا تو میں کسی لڑکی کے ننگے پستان شاید پانچ دس سال بعد ہی دیکھ سکتا۔پہلے تو میں جاب کرتا پھر پیسے اکٹھے کر کے فاطمہ کی شادی کرتا۔ پھر اپنے لیے پیسے اکٹھے کرتا او ر پھر اپنی شادی کرتا تو سہاگ رات کو اس طرح کا کچھ دیکھنے کو ملتا۔اور ضروری بھی نہیں کہ اتنا مزہ آتا۔ بہت سارے لو گ پیسے کما کما کر گنجے ہو جاتے ہیں اور پھر نو من کی دھوبن کے ساتھ شادی کر کے ساری زندگی اپنی جوانی کا ماتم کرتے رہتے ہیں۔ میں تو اب ہر قید سے آزاد تھا۔ فاطمہ بھی جانتی تھی کہ وہ میری بہن نہیں، اس لے میں اب اس کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا پابند نہیں تھا۔ بلکہ اب وہ بھی میر ی طرح آزاد محسوس کرنے لگی تھی۔ اس کو نہاتے ہوئے دیکھ کر اصولی طور پر مجھے اس کو چھونا چاہئے تھا اور اس کے اٹھے ہوئے سینے کے گول گول کے ابھار میرے لیے ویسے ہی تھے جیسے حنا کے پستان تھے۔ مجھے چاہیے تھا کہ میں ان کو فوراً پکڑ لیتا مگر بچپن سے ایسا کبھی سوچا ہی نہ تھا۔
میں غلط نہیں تھا مگر....Part 1
اب وہ بالکل ننگی ہو چکی تھی۔ اس کا پورا جسم میرے سامنے تھا۔میں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور اسکے پیٹ کو چھونے لگا۔ اس کو اب مزہ آنے لگا تھا۔ وہ چاہتی تو ماچس لے کر واپس جا سکتی تھی۔ مجھے لگا وہ خود بھی یہی چاہتی ہے کہ میں اس کی جوان ٹانگوں کے درمیان ہا تھ لگاؤں اور اس کو مسلوں۔ میں گم سم کھڑا تھا۔
’میں ماچس مانگ رہی تھی آپ سے۔ آپ کن خیالوں میں کھو گئے؟‘ اس کی آواز مجھے حقیقی دنیا میں لے آئی۔ اس نے ہلکے گلابی رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور گلابی دوپٹہ اس کے گلے میں تھا۔ اس کی قمیض کا گلہ اتنا تھاکہ سینے کی گولائیاں بالکل نظر نہیں آ رہی تھی۔ میں نے اپنے دماغ میں ہی اس کو ننگا کیا تھا اور اس کے پیٹ کو چھو لیا تھا۔ یقینا اس کو لگا ہو گا کہ میں اس کو گندی نظر سے دیکھ رہا ہوں۔ کم از کم مجھے تو یوں ہی لگا کیونکہ اس نے فورا ً اپنے دوپٹے کو گلے پر پھیلا لیا۔
’وہ، دراصل، میں سوچ رہا تھا....‘ میں نے رک رک کے کہا۔ ’کہ ماچس کدھر پڑی ہو گی؟‘
’ماچس تو کچن میں ہی ہوتی ہے نا۔‘ وہ لوگ سامنے والے گھر میں آج ہی شفٹ ہوئے تھے۔ اس نے اپنا نام حنا بتایا تھا۔ ان کے ابا نہیں رہے تھے اور بس وہ تین بہنیں اور ان کی امی ہی گھر کے کل افراد تھے۔
’آپ اپنی امی سے کہہ دیں وہ دے دیں گی۔‘ حنا نے تجویز دی۔
’میری امی تو فوت ہو چکی ہیں۔ بس فاطمہ اور اماں بی بی گھر میں ہوتی ہیں۔‘ میں نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔ ’اور اس وقت فاطمہ کے کالج میں جمناسٹک کا مقابلے میں شرکت کر رہی ہے اور اماں بی بی بازار سے سودا سلف لینے گئی ہیں۔‘ یہ کہہ کر مجھے غلطی کا احساس ہوا کہ مجھے گھر میں اکیلا پا کر وہ تو فوراً واپس چلی جائے گی۔لیکن اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
’اچھا میں سا تھ والے ہمسایوں سے لے لیتی ہوں‘ وہ یہ کہہ کر پلٹنے ہی والی تھی کہ میں نے آخری امید کے
طور پر کہا۔
’آپ خود ماچس دیکھ لیں کچن میں۔‘ میں جانتا تھا کہ وہ یہ جاننے کے بعد کے میں گھر پر اکیلا ہوں اور للچائی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا، وہ اندر نہیں آئے گی۔
’نہیں میں سا تھ والو ں سے لے لوں گی، آپ کو زحمت دی میں نے‘۔ اس نے کہا۔
’نہیں، نہیں اس میں زحمت کی کیا بات ہے۔ آئیے نا‘۔ میں دروازے سے پیچھے ہٹ گیا۔
وہ سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کرے لیکن حیرت انگیز طور پر وہ گھر میں داخل ہو گئی۔ وہ ہو گی تو اٹھارہ بیس سال کی لیکن لگتی سولہ سال کی تھی۔اس کے کپڑے اس کی جسم پر بہت سج رہے تھے۔ اس نے دوپٹہ سر پر نہیں اوڑھا تھا بس گلے میں ہی لیا ہو ا تھا۔ میں نے اس کو گلے لگایا تو کتنا ہی مزہ آئے گا۔ اس کی چھاتیاں کتنی بڑی ہیں۔۔
’کچن کدھر ہے؟‘ اس نے مجھ سے مڑ کر پوچھا اور میں ایکدم ٹھٹک کے رک گیا۔ میرا دل دھڑ ک اٹھا کہ جب وہ مڑی تو اس کی چھاتیوں کے ابھار تقریباً میرے سینے سے چھو ہی گئے۔
’جی، سامنے دائیں طرف۔‘ میں نے کہا اور نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظراس کے سینے پر تھی۔ اس کو پھر احسا س ہواکہ میں اس کے ابھاروں کو دیکھ رہا ہوں اور اس نے دوبارہ دوپٹہ درست کیا۔ وہ آگے کو مڑی اور کچن کی طرف بڑھی۔
میں اس کے پیچھے ہی کچن میں پہنچ گیا اور میری نظریں اس کے چوتڑوں پر تھی۔ دل کرتا تھا کہ ان پر ہاتھ پھیروں مگر ہاتھ آگے نہ بڑھ سکے۔
’ادھر کیبنٹ میں دیکھیں۔‘میں منمنایا۔اس کی بہادری دیکھ کر میں جہاں خوش تھا وہیں تھوڑا پریشان بھی تھا۔وہ میری گندی نظروں سے آگاہ تھی لیکن اس کے باوجود اندر آ گئی تھی۔ وہ بھی تو عمر کے اس حصے میں تھی جس میں سب کا دل ہی کچھ کرنے کو چاہتا ہے۔وہ بھی چاہتی تھی کہ میں اس کے سینے کو چھوؤں اوراس کی گولائیوں سے لطف اندوز ہوں۔ یا یہ میری ہی گندی سوچ تھی۔میں جانتا نہیں تھا مگر اس کا ایک ہی طریقہ تھا کہ میں اس کے سا تھ تھوڑا بے تکلف ہو جاتا۔
’آپ کے کپڑے بہت اچھے لگ رہے ہیں۔‘ مجھے لگا کہ شاید وہ برا منا جائے گی کہ میں اس کے ساتھ زیادہ ہی فری ہو رہا ہوں۔
’واقعی۔ آپ کو اچھے لگے۔رابعہ کہہ رہی تھی کہ بالکل اچھے نہیں لگ رہے۔ میں اس کو بتاؤں گی۔ اوہ میں آپ کو بتانا بھول گئی کہ رابعہ میری چھوٹی بہن ہے اور سعدیہ میری بڑی بہن ہے۔ ہم جب انارکلی گئے تھے نا، تب ہی ہم نے لیے تھے یہ کپڑے۔۔۔‘مجھے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ لڑکیاں اپنے کپڑوں کے بارے میں اتنی جذباتی ہوتی ہیں۔ وہ بولتی جا رہی تھی اور میں سنتا جا رہا تھا۔ میری نظریں کبھی اس کے سینے پر ٹھرتیں کبھی اس کے ہونٹو ں پر اور کبھی اس کے بالوں پر۔اس نے مجھے اپنے سارے کپڑوں کی تفصیل بتائی کہ کب لیے اور کب سلوائے اور کہاں سے۔مجھے اس کی ساری باتیں بہت اچھی لگ رہی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ وہ بولتی رہے اور میں اس کو دیکھتا رہوں۔
’آپ مجھے اپنے سارے کپڑے پہن کر دکھائیے گا میں آپ کو بتاؤں گا کہ کون سے اچھے ہیں اور کون سے نہیں۔‘ میرا مقصد تھا کہ اس کے ساتھ میر ا تعلق بنا رہے اور وہ دوبارہ بھی آئے۔ وہ سمجھی کہ شاید میں اس کے کپڑوں میں دلچسپی لے رہا تھا۔ میری دلچسپی تو ان چیزوں میں تھی جو ان بدبخت کپڑوں نے چھپا رکھی تھی۔
’آج نہیں پھر جب کسی دن امی گھر پر نہیں ہو ں گی تب میں آپ کو دکھاؤں گی کپڑے پہن کر۔‘ میرے تیر نشانے پر لگے تھے۔
’اوہ میں تو بھول ہی گئی کہ میں تو ماچس لینے آئی تھی۔‘ اور پھر اس نے کیبنٹ سے ماچس لی اور چلی گئی۔
میں گم سم کھڑا اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ مجھے امید تھی کہ وہ دوبارہ آئے گی۔
کچھ دن پہلے تک میں بھی بالکل عام لڑکا تھا۔ مجھے بھی صرف پڑھائی میں دلچسپی تھی لیکن سٹور کو صاف کرتے ہوئے مجھے کچھ خط ملے۔ ان خطوں نے میری زندگی بدل دی۔ اگر اماں بی بی پڑھی لکھی ہوتی تو شاید وہ خط وہاں نہ پڑے ہوتے۔ ان خطوں کو پڑھنے کے بعد اب میں کوئی عام لڑکا نہیں تھا۔ میری بہن میری بہن نہیں تھی۔قانونی کاغذوں میں کچھ اور تھا اور اصل حقیقت کچھ اور تھی۔ میں مختصراً یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے ابا میرے اباہی تھے لیکن میری امی میر ی امی نہیں تھیں کیونکہ جب میرے ابا کراچی میں تھے تو ان کی ایک خاتون سے دوستی ہو گئی اور وہ خاتون میری ماں تھی۔میں اپنی اصل ماں کا نام تک نہ جانتا تھا۔ ان کا نام ان خطوں میں ہمیشہ انتہائی غلط الفاظ میں لیا گیا تھا۔ اس سارے چکر میں میری بہن پیدا ہوئی تو ابا نے اس کو اپنی بیٹی ماننے سا انکا ر کر دیا اور آخر میری بہن کی ماں، یعنی میر ی قانونی ماں نے بھی اعتراف کر لیا کہ اگر ابا دوستیاں کر سکتے تھے تو وہ بھی کہیں سے اپنی خواہشات کی تسکین کر سکتی تھی۔ اور اس ساری بحث کا نتیجہ بڑا بھیانک نکلاکہ ابا نے خود کشی کی دھمکی دی اور میر ی قانونی ماں نے اس کو رد کر دیا۔ خط تو اس کے آگے خاموش تھے مگر میرے دماغ نے حساب لگایا کہ ابا نے خود کشی کر لی اور پھر اس احساس جرم کی وجہ سے میری قانونی ماں نے بھی اپنی جان لے لی۔ میں نجانے کیسے اس گھر تک پہنچ گیا اور اماں بی بی، جو یا تو ابا کی کوئی دور کی رشتہ دار تھیں یا وفادار ملازمہ، انھوں نے ہمیں پالا تھا۔ ہمارا گھر کافی بڑا تھا اور اوپر کے پورشن سے کافی کرایہ آجاتا تھا۔ اماں بی بی کا بھی دنیا میں کو ئی اور نہیں تھا اور ہمارا بھی۔
میں بی اے سے انہی دنو ں فارغ ہوا تو بوریت سے بچنے کے لیے اماں بی بی کے کہنے پر گھر کی صفائی پر لگ گیا اور پھر مجھے وہ خط مل گئے۔ میں انتہائی دکھی ہو گیا۔ میری زندگی کی سار ی تصویر میرے سامنے دھندلی پڑنے لگی۔ سارا معاشرہ سارا علم اس نئی بات کے سامنے بکھر گیا۔ میں تو اپنے آپ کو کچھ اور ہی سمجھتا تھا۔ میں تو اپنے آپ کو یتیم سمجھتا تھا، مسکین سمجھتا تھا مگر میں تو کچھ اور ہی تھا۔ ایک ایسا لفظ جو کو ئی بھی اپنے بارے میں استعمال نہیں کرنا چاہتا۔میں یہ کیسے مان سکتا تھا کہ میں ایک ’حرامزادہ‘ تھا۔ شاید یہ خط غلط کہہ رہے تھے۔ میں عجیب شش وپنج میں پڑ گیا۔ اماں بی بی نے ہمیشہ کہا تھا کہ میں اپنے ہاتھو ں سے فاطمہ کی ڈولی رخصت کروں گا۔ لیکن اگر کسی کو پتہ لگ گیا کہ ہم کیا ہیں تو کیا ہو گا۔فاطمہ کو بھی بتانا ہو گا کہ ہم پیچھے سے کیا ہیں۔ کیا فاطمہ سمجھ پائے گی۔ اور پھر میں نے وہ سارے خط واپس اسی لوہے کے صندوق میں رکھ دیے اور چند دن بعد فاطمہ سے کہا کہ وہ سٹور صاف کر دے۔میں نے فیصلہ فاطمہ پر چھوڑ دیا کہ وہ ان خطوں کا کیا مطلب نکالتی ہے۔
اپنے بارے میں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں تو پریشانی کی حد کو پہنچ گیا۔ غالب نے کہا تھا
؎ مشکلیں پڑیں مجھ پہ اتنی کہ آساں ہوگئیں
اس کے مصداق میں بھی چند ہی دنوں میں دنیا کے سارے نئے مطالب سے آگاہ ہو گیا۔کیا تھا اتنی مشکلات سے بچنے کا طریقہ؟ کو ئی بھی نہیں۔ میری زندگی کی یہ چیزیں میرے پیدا ہونے سے پہلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ میں اپنی ماں کو جانتا بھی نہیں تھا۔ میں نے اپنے ہوش میں ان کو دیکھا بھی نہ تھا۔ وہ زندہ تھی یا مر چکی تھی، مجھے پتہ نہیں تھا۔ میں اپنے خول میں اس قدر بند ہو سکتا تھا کہ میں کسی سے کوئی تعلق ہی نہ رکھتا۔ کہتے ہیں کہ جوان لوگ اپنے مسائل کے انوکھے حل ڈھونڈ کر زندگی کی حرارت کو کم نہیں ہونے دیتے اور زیادہ عمر کے لوگ محض اس لیے زندگی کی حرارت کو کھو دیتے ہیں کہ وہ ماضی کی زندگی کے تجربات میں ہی تمام مسائل کا حل ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ زندگی کی حرارت درحقیقت صرف تبھی قائم رہ سکتی ہے جب ہم کچھ ایسا کرنے پر تل جائیں کہ جو ہمارا دل چاہتا ہو۔ میں نے اپنے آپ کو تمام غلط سوچوں اور غلط کاموں سے بچا کر رکھا تھا۔ مگر اب کیا فائدہ؟ میرا بر ا ہونا پہلے سے ہی طے تھا۔ میری پیدائش سے بھی پہلے۔
مجھے یقین تھا کہ میں غلط نہیں ہوں اور نہ ہی فاطمہ۔ مگر ہماری باتوں پر کون یقین کرتا۔ یہ بہت آسان تھا کہ ہم وہ خط پھاڑ کر پھینک دیتے۔ لیکن ہم تو سچ جانتے تھے۔ ہم ہمیشہ اس شک کا شکار رہیں گے کہ کل کسی کو پتہ چل گیا تو۔یہ شک زیادہ تکلیف دہ تھا۔
میری اداسی بڑھتی گئی اور حد سے بڑھ گئی۔ اور پھر میرے ذہن میں آنے لگا کہ اگر میں زندگی سے بھر پور لطف اندوز ہو سکوں تو میری اس اداسی کا علاج ممکن ہے۔ میں تو پہلے ہی اس معاشرے کے تمام اصول وضوابط سے باہر ہوں۔ میں اس معاشرے کے ٹھیکیداروں کو جواب نہیں دے سکتا تھا اور میرے ماتھے پر یہ داغ ابدی تھا۔
فاطمہ مجھ سے بہادر نکلی۔ وہ تین دن تک مجھے پریشان نظر آئی اور پھر میرے پاس آئی۔
’بھا ئی، مجھ سے کون شادی کرے گا؟ کیا فائدہ اس سب جھوٹ کا جو اماں بی بی نے ہم دونوں کو بچپن سے سنا رکھا ہے؟‘یہ کہہ کر اس نے تمام خط میرے سامنے بستر پر پھینک دیے۔
میں کچھ نہ بولا۔ کچھ کہنے کو تھا بھی نہیں۔
وہ اٹھ کر چلی گئی۔مجھے لگا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میرے ذہن نے ایک طرح کی بغاوت کر دی تھی۔ میں ہر اس چیز کو غلط کہنے لگا تھا جس کو میں پہلے ٹھیک سمجھتا تھا۔ مجھے یہی ایک بات سچ لگتی تھی کہ لوگ مجھے برا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ کو ئی جانتا بھی نہ تھا کہ میں کیوں پریشان تھا، میں کیوں باغی ہوتا جا رہا تھا۔
’یہ لڑکا تو ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے، اے فاطمہ تو ہی سمجھا اس کو۔‘ اماں بی بی نے فاطمہ کو کہا جب میں نے اماں بی بی کوچینل تبدیل کرنے سے انکار کیا اور ٹی وی پر ایک مغربی فلم دیکھتا رہا جس میں لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو ہونٹوں پر بوسہ دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بہن کے سامنے یہ مت دیکھو، یہ بے حیائی ہے۔
’پھر کیا ہوا اماں بی بی، لڑکا اور لڑکی آپس میں پیار ہی تو کر رہے ہیں، کسی کا قتل تو نہیں کر رہیا۔دیکھو عمران دیکھو۔‘ فاطمہ نے دکھی سے لہجے میں کہا۔
’کس قدر بیہودہ باتیں کرنے لگی ہو فاطمہ۔ آج کل کی تو ساری نسل ہی خرابی کی طرف جا رہی ہے۔ کچھ کام کاج تو کرتے نہیں اور ٹی وی پر بے حیائی دیکھتے رہتے ہیں۔‘ یہ کہہ کر اماں بی بی وہاں سے اٹھ گئیں۔
’میں نے کیا غلط کہا۔بس ٹیوشن ہی پڑھا سکتے ہیں بھائی اس وقت۔ اور کوئی کام اتنی آسانی سے نہیں ملتا۔‘ فاطمہ نے اماں بی بی کو پورا جواب دیا۔
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اماں بی بی خود بھی تو منافقت کر رہی ہیں اور خود بھی سچ کو چھپا کر جھوٹ کو فروغ دے رہی ہیں۔ آخر کو ہر کوئی جھوٹا ہے، کو ئی زیا دہ اور کوئی کم۔
میرے خیالات فاطمہ کے بارے میں بھی کچھ عجیب سے ہو رہے تھے، اگر وہ میری بہن نہیں ہے تو وہ بھی ایک لڑکی ہی ہے مگر کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اچانک میر ی پوری دنیا الٹ دی گئی تھی۔ میں کیا کرتا۔اور پھر اگلے ہی دن حنا ماچس لینے آگئی۔
ویسے بھی میرے ذہن میں ہر وقت لڑکیاں ہی چھائی رہنے لگی تھی۔ میں کیا کر سکتا تھاا۔کہتے ہیں کہ خالی دماغ شیطان کر ڈیرہ بن جاتا ہے۔ میرے پاس روپے پیسے تو تھے نہیں کہ کہیں باہر جاتا۔ میرے ذہن میں فاطمہ بار بار آجاتی تھی اور پھر مجھے یہ بھی لگا کہ فاطمہ بھی اسی طریقے سے سوچ رہی ہے جیسے میں سوچ رہا تھا۔ اس نے کل مجھے پہلی باربھائی کی بجائے عمران کہا تھا۔ میرا دل نہیں مانتا تھا کیونکہ میں نے ہمیشہ اس کو بھائی کی نظر سے دیکھا تھا۔ میرا دماغ روز بروز اس کو کسی لڑکی کی طرح دیکھنے لگا تھا۔ میں اس کے سینے کے ابھاروں کو دیکھتا تو مجھے عجیب سا مزہ آنے لگتا۔ کچن میں وہ کام کرتی تو میں اس کی کمر کو دیکھتا اور جب وہ میرے سامنے کھانا رکھنے کو جھکتی تو اس کی چھاتیوں کی ہلکی سی جھلک میرے لیے خوشگواری کا باعث ہونے لگی۔ فاطمہ نے بھی اس طریقے سے دوپٹہ لینا چھوڑ دیا تھا جیسے مشرقی لڑکیا ں بھائیوں کے سامنے لیتی ہیں۔
ایسے میں مجھے حنا بہت اچھی لگی۔ میں شاید اس کو پیار کرنے لگا تھا یا یہ صرف ایک ہوس تھی۔ مجھے لگا کہ فاطمہ کی بجائے حنا میں دلچسپی لینا بہت بہتر ہے اور ہو سکتا ہے کہ فاطمہ مجھے بھائی کے علاوہ کسی اور روپ میں دیکھنا پسند نہ کرے۔ مجھے لگا کہ میں اپنی نظروں میں تو اچھا رہوں گا اگر میں نے فاطمہ کے علاوہ کسی دوسری لڑکی میں دلچسپی لی۔ حنا معصوم تھی اور اسے کچھ پتہ نہیں تھاکہ میری دنیا الٹ چکی ہے اور میرے لیے اب اچھائی اور برائی کے تقاضے کچھ اور ہی ہیں۔
دنیا عجیب جگہ ہے۔ یہاں سب کچھ بدل جاتا ہے۔ کل تک جو میری بہن تھی آج وہ میرے لیے صرف ایک اور لڑکی تھی۔وہ لڑکی جو کل تک میر ے لیے تھی ہی نہیں آج میری جان تھی۔ اور میں جو کل تک ایک عام لڑکا تھا، آج حرامزادہ تھا۔ میں کل تک جو چیزیں سوچ بھی نہیں سکتا تھا آج وہ میرے شب وروز کو چلانے لگی تھی۔ننگی لڑکی کو دیکھنے کی خواہش اور اس کو کچھ کرنے کی خواہش ہر چیز پر چھا گئی تھی۔شاید انفارمیشن ہی ہماری زندگیوں کے فیصلے کرتی ہے۔
دو تین دن گذر گئے۔ حنا نہیں آئی۔ میں ہر روز صبح سے شام تک اس کا انتظار کرتا۔ اس دوران میں نہ چاہتے ہوئے بھی فاطمہ نظر آتی تو اس کی چھاتیاں مجھے اپنی طرف کھینچتی اور میری نظر ان سے چپک جاتی۔ فاطمہ بھی پہلے کی طرح نہیں رہی تھی۔ شاید وہ بھی لڑکو ں کے بارے میں زیادہ سوچنے لگی تھی۔ وہ بھی ٹی وی پر مغربی پروگرام میرے ساتھ دیکھنے لگی تھی اور جب کو ئی لڑکا کسی لڑکی کو پکڑ لیتا تو بھی وہ بیٹھی دیکھتی رہتی جبکہ پہلے کبھی ایسے ہوتا تو وہ فوراً اٹھ جاتی تھی۔ اماں بی بی بولتی رہتی تھی اور تب بھی وہ ان کی بات نہیں سنتی تھی۔ صبح جب میں واش روم میں جانے کے لیے اٹھا تو واش روم کا دروازہ پورا کھلا تھا اور اندر فاطمہ نہا رہی تھی۔ میں ایک دم رک گیا، اس کی آنکھیں بند تھی اور وہ شاور کے بہتے پانی کا مزہ لے رہی تھی۔ وہ بچپن میں ڈر جایا کرتی تھی اس لیے کبھی اپنے کمرے کا یا واش روم کا دروازہ بند نہیں کرتی تھی لیکن اس طرح سے پورا کھلا بھی کبھی نہیں چھوڑتی تھی۔ اس کا پتلا جسم اور بڑی بڑی چھاتیاں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ دل بہت کیا کہ اس کو دیکھتا رہوں پر ایک ہی نظر کے بعد میں وہا ں سے ہٹ گیا اور باہر والے واش روم میں چلا گیا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ میری بہن ہے اور اگر اس کو دیکھا تو میرے اوپر کوئی برا اثر ہو جائے گا۔ دل تو چاہتا تھا مگر ہمیشہ اس کو بہن کی نظر سے دیکھا تھا اب کیسے اسے اپنی محبوبہ بنا لیتا۔ واپس آکر لیٹا تو میرے خواب میں فاطمہ نہا رہی تھی اور میں اس کے ساتھ کپڑے اتار کر نہانے لگا۔ ’بھائی باہر نکلو، کوئی بہنو ں کے ساتھ بھی نہاتا ہے کبھی۔‘ اور میر ی آنکھ کھل گئی اور اتنا خوبصورت خواب ختم ہو گیا۔ کا ش خواب میں یہ پتہ چل جاتا کہ یہ خواب ہے تو میں اس کو کہتا ’مجھے اپنی چھاتیوں کو ہا تھ لگانے دو، انہیں دبانے دو، یہ تو صرف خواب ہے، کسی کو پتہ نہیں چلے گا،کوئی کچھ نہیں کہے گا۔‘ لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ خواب میں خواب بھی حقیقت کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ میرا دل میرے خواب میں مجھے واش روم میں نہاتی ہوئی فاطمہ کے پاس لے گیا اورمیرا دماغ زمانے کے رائج اصولوں کے مطابق مجھے اس سہانے خواب سے باہر لے آیا۔لاکھ دل کرنے کے باوجود یوں لگتا تھا کہ وہ میر ی بہن ہے۔مجھے لگا کہ یہ دل اور دماغ کی جنگ تو میر ی جان لے کر ہی رہے گی۔
دوپہر کو جب فاطمہ کالج سے نہیں آئی تھی اور اماں بی بی حسب معمول قیلولہ کر رہی تھی، باہر کا دروازہ کھٹکا۔ میر ے دل نے کہا کہ یہ حنا ہے اور میں بھاگا بھاگا دروازہ کھولنے پہنچا۔ سامنے دیکھا تو ایک بھکاری بھیک مانگنے کھڑا تھا۔
’معاف کرنا بابا۔‘میں کہہ کر واپس پلٹ آیا۔ ابھی برآمدے میں ہی تھا کہ دروازہ پھر کھٹکا۔میں غصے میں پلٹا اور دروازہ کھول کر اس سے پہلے کہ گالیوں کا طوفان میرے منہ سے نکلتا، میں نے دیکھا کہ نیلے رنگ کے خوبصورت سے جوڑے میں ملبوس حنا باہر کھڑی تھی۔ دروازہ کھولتے ہی وہ ایک قدم اندر آگئی۔
’میں کپڑے لے آؤں، آپ کو دکھانے کے لیے۔‘اس نے بات کا سلسلہ یوں شروع کیا کہ جیسے اس دوران کئی دن نہیں بس چند منٹ گذرے تھے۔ وہ اس لہجے میں بات کر رہی تھی جیسے ہم پرانے دوست ہوں۔
’نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔،مم میر ا مطلب ہے کیو ں نہیں۔بس ایک مسئلہ ہے اماں بی بی گھر پر ہیں، اگر ان کی آنکھ کھل گئی تو وہ برا مان جائیں گی، وہ لڑکے لڑکیوں کا ملنا ملانا پسند نہیں کرتی۔‘ میں نے مسئلہ بیان کر دیا۔میر ا ارادہ تھا کہ جب شام کو اماں بی بی کسی پڑوسن سے ملنے گئی ہوں گی تو حنا کو بلا لوں گا اور پھر جس قدر ہو سکا مزے کروں گا۔
’ارے یہ تو کوئی مسئلہ نہیں، میرے گھر میں اس وقت کوئی نہیں۔ سارے بازار گئے ہیں، میں سر درد کا بہانا بنا کر رک گئی تھی، آپ میر ے گھر آ جائیں۔‘اس نے یہ کہہ کر میرا سارا مسئلہ حل کر دیا۔ مجھے اس میں اشارہ لگا کہ اس نے مجھ سے ملنے کے لئے اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولا۔اس کا مجھے اکیلے میں اپنے گھر بلا لینے کا کیا مطلب تھا؟ کیا وہ بھی وہ سب کچھ ہی چاہتی تھی؟ میں اور وہ ایک ہی چیز چاہتے تھے؟ وہ معصوم تھی، بھولی تھی،کم عمر تھی مگر کیا وہ اتنی ہی بیوقوف تھی کہ ایک لڑکے کی اپنی چھاتیوں پر نظر کے مطلب کو نہ سمجھ سکے؟ میں نے یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کا مطلب کس نوعیت کا ہے، اچانک اپنا ہاتھ آگے کیا جیسے میں نے ایسا غیر شعوری طور پر کیا ہو۔
’یہ بات۔۔‘میں نے ہا تھ آگے بڑھایا۔
’یہ بات۔۔‘اس نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا۔ میں نے آہستہ سے اس کے ہاتھ کو پکڑ لیا اور سرگوشی کے انداز میں کہا۔
’میں اماں بی بی کو بتا کر آیا کہ دوستوں کے سا تھ جا رہا ہوں اور میں اپنا پاجامہ بدل کر پینٹ پہن لوں۔‘میں نے واپس جانے کے لیے پیچھے مڑنا چاہا۔
’یہ پا جامہ ہی ٹھیک ہے اورآپ کیا اماں بی بی سے ڈرتے ہیں کیا؟‘اس نے اچانک سوال کر دیا۔
’نہیں، بس زمانے کا ایک ڈر ہے، کہیں مجھے کوئی غلط نہ سمجھ لے۔‘میں نے فوراً کہا۔ میں اب بھی کچھ خوف زدہ تھا، حالانکہ میں جانتا تھا کہ اب میر ی زندگی وہ نہیں ہے جو پہلے تھی۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھیتھا کہ اس کو اس بات کی سمجھ تھی کہ میں کچھ ایسا کر رہا ہوں جس میں ڈرنے کا امکان موجود ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ میں کسی سے ڈروں۔ میں اگر اماں بی بی یا کسی اور سے نہ ڈروں تو میں اس کے ساتھ کچھ ایسا کر سکتا تھا جو کوئی اور کرتے ہوئے ڈر جائے گا۔ سوال یہ تھاکہ کیا وہ چاہتی تھی کہ میں نہ ڈروں؟
’کیا تم نہیں چاہتی کہ میں کسی سے ڈروں؟‘میں نے سنجیدہ سا منہ بناتے ہوئے کہا۔ میں نے محسوس کیا کہ جب بھی معاشرے کے پکے اصولو ں سے ہٹنے کی کوئی کوشش کرے گا وہ تھوڑا سا تو ڈر محسوس کرے گا ہی اور اسی ڈر میں مزہ بھی ہے۔ جو کام بغیر ڈر کے ہو گا اس میں وہ مزہ نہیں، شاید میرے ابا بھی اسی قسم کی کسی خواہش کا شکار بنے ہوں گے۔
’نہیں میں نے بس ایسے ہی پوچھا تھا۔‘اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس کی مسکراہٹ یہ ہی کہہ رہی تھی کہ وہ مجھے بہادر ہی دیکھنا چاہتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلی ہی ملاقات میں میری نظریں اس کی ان جگہوں پر پہنچ گئی تھی جہا ں عام لوگوں کی نظریں جاتے ہوئے کتراتی ہیں۔
’میں بس اماں بی بی کو بتا کر آیا‘ میں اندر آیا اور سوئی ہوئی اماں بی بی کو بتایا کہ میں دوستوں کے ساتھ باہر جا رہا ہوں۔ وہ نیند میں ہی کچھ بڑبڑائیں کہ جلدی واپس آجانا اور میں با ہر آ گیا۔
باہر تیز دھوپ تھی اور ہوا یا بادل نام کو بھی نہ تھے۔ حنا کا منہ دھوپ سے سرخ ہو رہا تھا اور وہ مجھے اور بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔ سامنے والے گھر میں ہی تو جانا تھا، ہم ا یک لمحے میں حنا کے گھر کے اندر تھے۔صحن سے سیڑھیا ں اوپر جا رہی تھی۔
’ادھر آ جائیں میرے کمرے میں۔‘حنا نے کہا اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہو ا اس کے کمرے میں پہنچ گیا۔ٹی وی لاؤنج سے بھی سیڑھیاں اوپر کو جارہی تھی جیسے پرانی فلموں کے سیٹ ہوتے ہیں۔حنا کے کمرے میں ہر طرف کپڑے بکھرے ہوئے تھے جیسے کسی نے اپنے کپڑوں کو تیزی سے الٹا پلٹا ہو اور کچھ کپڑے علحدہ پڑے ہوئے تھے۔
’چلیں میں کپڑے پہن کر آؤں گی اور آپ نے بتانا ہے کہ کون سے آپ کو اچھے لگے، ٹھیک ہے؟‘ اس نے ایسے کہا جیسے بچے کسی کھیل سے پہلے طریقوں کو واضح کرتے ہیں۔
’ٹھیک ہے۔‘ میں نے کہا جیسے میں یہ کھیل کھیلنے کو تیار تھا۔ میں اصل میں اس کھیل میں زیادہ مگن تھا جو اس کھیل کی آڑ میں کھیلا جا سکتا تھا۔
اس نے کپڑے اٹھائے،دوسرے کمرے میں گئی اور جھٹ سے سبز رنگ کے سوٹ میں واپس آگئی۔
’کیسا ہے؟‘
’بہت اچھا‘۔
وہ پھر گئی اور سرمئی رنگ کے سوٹ میں واپس آئی جس میں سفید اور کالے رنگ کے پھول تھے۔
’بہت ہی اچھاہے۔‘اس رنگ میں اس کا رنگ اور بھی زیادہ سفید لگ رہا تھا۔
اس نے تقریباً دس سوٹ مجھے دکھائے جو مجھے ایک سے ایک زیادہ اچھے لگے اور میں نے ان کی تعریف کر دی۔ بھلا میری کیا مجال کہ کسی سوٹ کو برا کہوں اور پھر اس کے گھر سے نکل جاؤں، میری نظر میں مجھے اس کی صرف تعریف ہی کرنا تھی۔میں سکون سے بیٹھا تعریف کر رہا تھا۔ میں یہ بھول گیا کہ صر ف تعریف سے کھیل کی خوبصورتی،یعنی ہار کا ڈر، ختم ہو جائیگی۔
’آپ کو تو میرے سارے ہی کپڑے اچھے لگ رہے ہیں، صحیح طرح سے دیکھ بھال کر بتائیں نا، صرف میرا دل رکھنے کے لیے نہیں۔‘وہ سٹپٹا کر بولی۔
’اچھا اب ایک ا یک چیز صحیح صحیح بتاؤں گا۔‘میں ہوش میں آگیا۔ مجھے لگا کہ اگر میں اچھا نہ کھیلا تو گیم سے آؤٹ بھی ہو سکتا ہوں۔ مجھے وہ واقعی اچھی لگ رہی تھی کیونکہ کپڑوں سے زیادہ میری توجہ اس چیز کی طرف تھی جو ان منحوس کپڑوں نے چھپا رکھی تھی۔
وہ جب کپڑے بدلنے کے لئے دوسرے کمرے میں جانے لگی تو اس کو محسوس ہو ا کہ جتنے کپڑے لے کر وہ گئی تھی وہ سب تو وہ دکھا چکی ہے۔ وہ رکی اور اس نے نئے کپڑے منتخب کئے او ردوسرے کمرے میں جانے لگی۔پھر بولی۔
’میں یہیں بدل لیتی ہوں آپ آنکھیں بند کر لیں۔ ٹھیک ہے؟‘مجھے لگاکہ وہ گیم کے نئے اصول بنا رہی تھی، شائد وہ پرانے اصولوں سے تنگ آگئی تھی۔ یا شائد میں نے اچھی گیم نہیں کھیلی تھی۔ میرے لیے یہ گیم زیادہ اچھی تھی اور لاکھ دل چاہنے کے باوجود میں اس سے یہ نہیں کہ پایا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کرلی۔
’آنکھیں کھولنا نہیں جب تک میں نہ کہوں۔‘ اس نے تیزی سے کہا۔ میں نے ہلکی سی آنکھیں کھولی رکھیں تو وہ ڈانٹنے کے انداز سے بولی۔’میں پھر دوسرے کمرے میں چلی جاؤں گی۔‘
’اچھا اچھا،لو اب بالکل بند ہیں۔‘میں نے سوچا آنکھیں کھول کر رکھنے کی یہ سزا تو مجھے قبول ہوتی اگر میں اس کو ایک دفعہ ننگا دیکھ لیتا۔میں نے آنکھیں بند کر لی۔
’اچھا اب کھولیں۔‘اس کی آواز آئی۔
اس نے کالے کپڑے پہنے تھے جن میں اس کو گورا بدن باہر جھانک رہا تھا۔ وہ گھومی تو میں نے دیکھا کہ وہ جلدی میں اپنی پچھلی زپ بند کرنا بھول گئی ہے۔
’ہوں، اس دفعہ تو میں ذرا غور سے دیکھوں گا۔‘میں اٹھا اور چلتا ہو اس کے پیچھے پہنچ گیا۔ اس کی گوری اور گداز کمر پر ہا تھ لگانے کو دل کر رہا تھا۔ میں نے کندھوں سے پکڑ کر اس کو گھمایا اور غور سے اس کی چھاتیوں کو قریب سے دیکھا کہ وہ کتنی ہی خوبصورت ہیں۔ پھر دوبارہ اس کو کندھوں سے ہی گھمایا اور کھیلی زپ میں سے عیاں اس کی کمر کو دیکھنے لگا۔ اس نے ابھی تک کوئی اعتراض نہیں کیا تھا یا دوسرے لفظوں میں اس کو یہ گیم اچھی لگ رہی تھی۔ میں نے آرام سے اس کی کمر کو ہاتھ کی ہتھیلی لگائی اور بڑے آہستہ سے ہا تھ پھیرا۔ اس نے جب کچھ نہ کہا تو مجھے پتہ لگا کہ غلطی سے نہیں جان بوجھ کر اس نے زپ کھلی چھوڑی تھی۔ یہ سوچتے ہی میں اور بہادر ہو گیا اور میرا دل کیا کہ اس کی چولی کے ہک کو کھول دوں۔ اب میر ا عضوتناسل کھڑا ہو چکا تھا اور اس کے چوتڑوں کے ساتھ میں نے اس کو ہلکا ہلکا سا لگایا۔ میں نے پھر اس کو کندھوں کی بجائے کمر سے پکڑ کر سیدھا کیا اور ہلکا سا زور لگا کر اس کو اپنے قریب کیا۔ اب میر ا کھڑا ہوا تیر اس کی شلوار کے اوپر سے اپنے نشانے پر تھا۔ اس کو محسوس ہو رہا ہو گا مگر وہ دیکھ رہی تھی۔ میں نے اپنا دائیاں ہاتھ اس کے سینے کے ابھاروں پر آرام سے پھیرا اور ان ابھاروں کی نرمی اور گدازپن کو اپنی روح میں اترتا ہوا محسوس کیا۔انداز ایسا تھا جیسے میں تو صرف کپڑے دیکھ رہا ہوں۔
’نہیں یہ ڈریس مجھے اچھا نہیں لگا۔‘ میں یہ کہہ کر واپس اپنی جگہ پر آگیا۔
’اچھا آپ اپنی آنکھیں بند کریں، میں آپ کو دوسرے پہن کر دکھاتی ہوں۔‘اس نے جلدی سے کہا۔
’چلو ٹھیک ہے۔‘ یہ گیم تو میر ی آخری امیدوں سے بھی اچھی کھیلی جا رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں سیکھ رہا ہوں۔
اب کی بار اس نے ہلکے سبز کپڑے پہنے،جو ایک لمبی قمیض تھی اور جب وہ گھومی تو زپ پھر کھلی تھی۔ میں نے دیکھ لیا تھا کہ اس نے جان بوجھ کر نیچے شلوار نہیں پہنی۔
’یہیں سے بتا دوں یا اچھی طرح دیکھ بھال کے جیسے پچھلی بار دیکھا بھالا تھا۔‘میں نے اپنی کارکردگی کے بارے میں جاننے کے لیے پوچھا۔ جوں جوں یہ گیم آگے بڑھ رہی تھی، میں زیا دہ مزے کے ساتھ زیادہ بہادر ہوتا جا رہا تھا۔ اس کا رویہ مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دے رہا تھا۔
’نہیں ایسے نہیں دیکھ بھال کے۔‘ وہ بولی۔
میں اٹھا اور اس کے قریب پہنچ گیا اور کہا۔
’اب تم آنکھیں بند کرو، میں اچھی طرح دیکھ لوں پھر بتاؤں گا تو آنکھیں کھولنا۔ ٹھیک ہے؟‘ میں نے بھی اب گیم کے اصول بنانے شروع کر دیے تھے۔
’ٹھیک ہے۔‘اس نے خوشی سے کہا اور آنکھیں بند کر لیں۔
میں نے اس کی کمر پر ہا تھ پھیرا اور ہا تھ کو کپڑوں پر پھیرتے ہوئے اس کی چھاتی کی طرف لے آیا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں لیکن اس کے لبوں پر ایک پیاری سی مسکراہٹ تھی جیسی جوان ہوتی ہوئی لڑکیوں کے ہونٹوں پر ہوتی ہے۔ میں نے اس بار اس کی چھاتی کے ابھاروں پر ہاتھ روک لیا اور دوسرا ہا تھ اس کی کمر سے سرکاتے ہوئے اس کے چوتڑوں کے اوپر لا کر روک دیا۔ میر ا عضو تناسل پھر تن چکا تھا اس اس کی سائیڈ کو چھونے لگا تھا۔میں نے اپنے پاجامے سے اس کو آزاد کر دیا۔اس کے کپڑوں کے بجائے میرا ڈنڈا اس کی جسم کے ساتھ لگنا چاہتا تھا۔ میں چلتا ہوا اس کے پیچھے چلا گیا اوراپنا ایک ہاتھ اس کی چھاتی کے ابھاروں پر رکھا اور ہلکا سا دبایا۔دوسرے ہاتھ سے میں نے اس کی لمبی سبز قمیض اوپر اٹھانی شروع کر دی اور اس کے چوتڑوں کو ننگا کر لیا اور اس کے چوتڑوں کے رخساروں کے درمیا ن میرے موٹے اور لمبے عضو نے اس کو چومنا شروع کر دیا۔ میں بڑی دیر تک ایسا کرتا رہا۔ حنا چپ چاپ آنکھیں بند کئے کھڑی رہی۔ میں نے پیچھے سے ہی ایک ہاتھ اس کی اندام نہانی کی طرف لے گیا اور اس کے گھنے بالوں میں مجھے اس کے گیلے پن کا احساس ہوا۔ اس کو بہت مزہ آرہا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں اپنے سخت پن کو اس کی نرمی میں گھسا دوں۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ میں نے تقریباً بیس منٹ اس سے یہ سارا کھیل کیا اور پھر اس کی قمیض چھوڑ دی جس نے اس کے ملائم چوتڑوں کو ڈھانپ لیا۔ میں اپنا عضو بھی پاجامے کے اند ر کر لیا اور اس کے سامنے آکر اس کے چھاتی کے ابھاروں پر ہاتھ رکھے اور ان کو مٹھیوں میں دو تین دفعہ بھینچا اور پھر چھوڑ دیا۔
’نہیں یہ کپڑے بھی اچھے نہیں، اب آنکھیں کھول لو۔‘میں نے فیصلہ سنا دیا۔
’میں آپ کو ایک اور پہن کر دکھاتی ہوں، پھر آپ بتائے گا۔‘ اس نے بڑی خوش دلی سے فیصلہ قبول کر لیا جیسے و ہ اسی طریقے سے گیم کھیلنا چاہتی ہو۔
میں نے آنکھیں بند کر لیں۔
اس نے ایک ساڑھی پہنی اور مجھے آنکھیں کھولنے کو کہا۔
میں نے جب اس کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔اس نے پہلے ہی اپنی آنکھیں بند کر لی تھی۔ اس نے چولی بالکل ہی اتار دی تھی اور شفون کی ہلکی سی ایک ساڑھی پہن لی تھی۔میر ا دل کر رہا تھا کہ اس کی آنکھیں بند ہی رہیں اور میں اس کو سب کچھ کر دوں۔
میں اٹھ کر اس کے قریب پہنچا اور اس کے ننگی کمر پر ہا تھ پھیر ا اور ایک بوسہ بھی دیا۔ میں اس کی ننگی کمرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنے ہاتھ کو بغیر چولی والے پستانوں تک لے آیا اور اس کے دائیں ابھار کواپنے ہاتھ میں لے لیا اور ساڑھی کا پلو نیچے گرا دیا۔ اب وہ اوپر سے بالکل ننگی تھی۔ میں نے اس کے نارپستان کو انگوٹھے اور انگلی کے درمیا ن لیا اور ہلکا سا دبایا تو حنا کے ہونٹوں سے ’سی‘کی آواز نکل گئی۔ میں اس کے ننگے سینے کو دیکھتا رہا اور پھر اس کے پستانوں کے اوپر تنے ہوئے گلابی نپل کو منہ میں لے لیا اور چوسنے لگا۔میں نے پہلے ایک کو چوسا اور پھر میں دوسرے کو چوسنے لگا۔ میر ا دل کر رہا تھا آج سارا دن حنا کی چھاتیوں کو چوستا رہوں۔ اس نے اپنے ہاتھ میرے سر پر رکھ لئے اور سر کو اپنی چھاتی پر دباتی کہ جیسے اس کو اس سے بہت مزہ آرہا ہو۔
’ڈنگ ڈونگ۔‘اس وقت گھنٹی کی یہ آواز دنیا کی سب سے بری آواز لگی۔
’میرا خیال ہے امی لوگ آگئی ہیں۔‘حنا بھی چونک اٹھی۔ ہمارے اس کھیل میں تین گھنٹے گذر گئے تھے۔ اس نے جلدی سے کپڑے پہنے۔ میں نے اس کی چولی پیچھے سے بند کی۔
’آپ واش روم میں چھپ جائیں، جب راستہ صاف ہو گا تو میں آپ کو باہر نکال لو گی۔‘اس نے جلدی سے کہا اور کمرے سے نکل گئی۔
اچھی بات یہ تھی کہ اس کا کمر علحدہ تھا۔ میں نے جا کر واش روم کی اند ر سے چٹخنی لگا لی۔ میں نے اپنے عضوتناسل کو آزاد کیا اور اس کو ملنے لگا۔ حنا کا ننگا اور گورا بدن اب بھی جیسے میر ے ساتھ ہی تھا۔ مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ میں اس کی اندام نہانی، جس کا زیادہ مزیدار نام عام غیر ادبی لوگوں نے پھدی رکھاہے، کے منہ کے قریب سے ہو کے آیا تھا۔ سیانے کہتے ہیں، یار زندہ صحبت باقی۔لیکن یہ سوچ کہ کتنی خوبصورت چیز کے قریب سے ہو کر آیا تھا، مجھے دیوانہ کر رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں میرے عضوتناسل نے گاڑھے اچھلتے ہوئے سفید مادے کو خارج کیا اور بجلی کی ایک طاقتور رو میرے سروپے میں دوڑ گئی۔
Subscribe to:
Posts (Atom)