Wednesday, 11 June 2014

میں غلط نہیں تھا مگر...Part 2

جو جادو سر چڑھ کر بولتا ہے وہ کم ہوا تو پتہ لگا کہ میں اپنی مرضی سے اپنے ہمسایوں کے واش روم میں قید ہوں۔  میری زندگی بدل تو گئی تھی اور ان خطوں کی وجہ سے میں ایک حرامزادہ کہلایا جانے والا تھا، لیکن پھر بھی میں یہ سب لطف اس عمر میں نہ لے سکتا  اگر میں ویسا ہی ہوتا جیسے میں پہلے تھا۔مجھے لگا کہ ان خطوں نے مجھے زندگی کی اصل خوشیوں سے ہمکنار کرنا شروع کر دیا تھا۔اگر سب صحیح رہتا تو میں کسی لڑکی کے ننگے پستان شاید پانچ دس سال بعد ہی دیکھ سکتا۔پہلے تو میں جاب کرتا پھر پیسے اکٹھے کر کے فاطمہ کی شادی کرتا۔ پھر اپنے لیے پیسے اکٹھے کرتا او ر پھر اپنی شادی کرتا تو سہاگ رات کو اس طرح کا کچھ دیکھنے کو ملتا۔اور ضروری بھی نہیں کہ اتنا مزہ آتا۔ بہت سارے لو گ پیسے کما کما کر گنجے ہو جاتے ہیں اور پھر نو  من کی دھوبن کے ساتھ شادی کر کے ساری زندگی اپنی جوانی کا ماتم کرتے رہتے ہیں۔  میں تو اب ہر قید سے آزاد تھا۔ فاطمہ بھی جانتی تھی کہ وہ میری بہن نہیں، اس لے میں اب اس کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا پابند نہیں تھا۔ بلکہ اب وہ بھی میر ی طرح آزاد محسوس کرنے لگی تھی۔ اس کو نہاتے ہوئے دیکھ کر اصولی  طور پر مجھے اس کو چھونا چاہئے تھا اور اس کے اٹھے ہوئے سینے کے گول گول کے ابھار میرے لیے ویسے ہی تھے جیسے حنا کے پستان  تھے۔ مجھے چاہیے تھا کہ میں ان کو فوراً پکڑ لیتا مگر بچپن سے ایسا کبھی سوچا ہی نہ تھا۔
میں واش روم میں کھڑا سوچ رہاتھا کہ حنا کب آئے گی۔اب شا ید ایک گھنٹے سے اوپر وقت گذر چکا تھا اور حنا کے نرم و گداز کولہوں کے بارے میں سوچنے سے میر ا عضوتناسل پھر کھڑ ا ہو گیا تھا۔ اب میں وہاں کیا کرتا۔ میں اس کے نار پستان کو پھر سے اپنے منہ میں محسوس کرنے لگا اور مجھے لگاکہ میر ا عضواب اس کی پھدی، یا مہذب الفاظ میں اندام نہانی، کو چھو رہا ہے اور بس اندر داخل ہی ہو رہا ہے۔
اسی وقت باہر سے حنا کی آواز آئی۔
’جلدی سے باہر نکلو، موقع اچھا ہے گھر سے نکلنے کا۔میرا موبائل نمبر لے لو۔‘
میں باہر نکلا تو حنا نے بتایا کہ امی تھک کر سوگئی ہیں اور رابعہ اورسعدیہ ٹی وی دیکھ رہی ہیں۔ میں تیزی سے ادھر سے نکلا اور حنا کوالوداع بھی نہ کہہ سکا۔ اس وقت بغیر کسی کو نظر آئے  گھر سے نکل جانا سب سے ضروری تھا۔ میں نے اپنے گھر پر دستک دی۔ فاطمہ نے دروازہ کھولا۔ میں نے انتہائی اطمینان محسوس کیا کہ سکون سے گھر پہنچ گیا۔ اماں بی بی نے حسب معمول کچھ جلی کٹی سنائیں کہ دوستوں کے ساتھ پھرنے کی ببجائے  میں کو ئی کام دھندہ ڈھونڈوں کہ کل چھوٹی بہن کی شادی کرنا ہے،  بہت پیسہ چاہئے ہوتا ہے شادی کے لیے وغیرہ غیرہ۔ مجھے غصہ آیا کہ ساری زندگی تو مجھے جھو ٹ کے سا تھ پالا اور بنتی یوں ہیں کہ جیسے ان کو کچھ پتہ ہی نہیں۔  جس بہن نے بعد میں بھی واپس ہی آنا ہے کہ اس کے ماں باپ ہی ٹھیک نہ تھے اس کے لیے اپنی زندگی گلانے سے کیا حاصل؟میں نے جب فاطمہ کی طرف دیکھا تو اس نے ہا تھ جوڑ دیے کہ کہتی رہیں جو کہتی ہیں میں کچھ نہ کہوں۔ میں اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا اور ایک ناول پڑھنے لگا۔رات کا کھانا فاطمہ ہی لے کر آئی۔ اس نے دوپٹہ نہیں اوڑھا ہوا تھا جیسے وہ پہلے ہر وقت اوڑھے رکھتی تھی۔ جب و ہ واپس جانے کے لیے مڑی تو اس کے چوتڑوں کو دیکھ کر میر ا عضو تناسل کھڑا ہو گیا کہ میں نے آج ہی تو حنا کے ننگے چوتڑوں کو دیکھا  اور محسوس کیا تھا۔ فاطمہ کچن میں گئی اور میرے سامنے پانی رکھا تو اس کے کھلے گلے میں سے اس کے گول گول ابھاروں کو پکڑ لینے کو دل کیا۔ میں رک گیا ور توجہ کو حنا کی طرف لگا دیا۔رات کو ناول پڑھتے ہوئے میں جلد ہی سو گیا۔
رات کے کوئی تین بجے کا وقت ہو گا جب میر ی آنکھ کھل گئی اگرچہ میری آنکھ عام طور پر صبح ہی کھلتی تھی۔مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ میر ا عضو تناسل پہلے سے زیادہ موٹا اورتگڑا ہو کر کھڑا ہے۔ میر ا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور میرا دل کیا کہ میں حنا کے گھر جاؤں اور اس کی پھدی میں اپنا  پورا عضو تناسل گھسا  دوں۔  یہ عجیب کیفیت تھی۔ مجھے لگا کہ میں اپنے قابو میں نہیں۔ یہ پہلی بار محسوس ہوا تھا۔مجھے لگا کہ میری اس تلوار کا اپنا ایک دماغ تھا۔ یہ شاید جبلت تھی، میرے اندر کا جانورتھاجو  اٹھ بیٹھا تھااور معاشرتی قدروں اور تقاضوں سے آزاد تھا۔ مہذب انسان درحقیقت ایک کمزور جانور ہے اور جب کسی کواس تہذیب سے آزادی ملتی ہے، جیسے مجھے ملی تھی، تو وہ  زیا دہ طاقت کے ساتھ اپنی جبلی صلاحیتوں اور طاقتوں کو استعمال کر سکتا ہے۔میں اس وقت اپنے آپے میں نہیں تھا۔ میں اگر حنا کے گھر جا تا تو دیوار پھلانگ کے جاتا،اندر کے دروازے کیسے کھولتا، حنا کو تو اچھا لگتا لیکن اگر اس کی امی نے دیکھ لیا تو کیا ہوتا۔میں نے اپنے آپ کو قابو میں کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن مجھ نیند نہیں آرہی تھی اور لگتا تھا کہ اگر حنا  مجھے نہ ملی تو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا۔ میں نے حنا کو موبائل پر میسج کیاکہ وہ کیا کر رہی ہے۔ مگرکوئی جواب نہیں آیا۔ مجھے لگا کہ وہ گہری نیند سو رہی ہو گی۔
میں اپنے کمرے سے نکلا کہ حنا کی دیوار پھلانگوں گا اور اس کے صحن میں موجود سیڑھیوں سے اوپر چڑھ کے چھت پر پہنچ کر حنا کو میسج کروں گا کہ سیڑھیوں کا دروازہ کھولے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ یہ سب سے آسان طریقہ ہے  حنا تک پہنچنے کا۔میرے ذہن میں تھا کہ میں صبح ہونے تک اس کے ساتھ سب کچھ کر سکتا تھا۔میں فاطمہ کے کمرے کے باہر سے گذرا تو دیکھا کہ دروازہ مکمل طور پر کھلا ہے  اور و ہ اند رسو رہی ہے۔کمرے میں زیرو  واٹ کا بلب روشن تھا۔  اس نے وہی شام والے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ صرف اس کی شلوار تھوڑی سی نیچے ہوگئی تھی جس سے اس کے خوبصورت کولہے جھانک رہے تھے۔ میں رک گیا اور میرے اندر کا جانور مجھے فاطمہ کی طرف کھینچنے لگا۔فاطمہ کسی کی کچھ نہیں بتائے گی، کو ئی شور نہیں مچائے گی۔ وہ تو مجھے ہی کہتی تھی اگر کوئی لڑکا اس کی طرف گندی نظر اٹھائے۔ اب تو وہ جانتی تھی کہ میں اس کا بھائی نہیں ہوں، اب تو اس کو چاہئے تھا کہ وہ دروازہ بند کر لیتی۔ لیکن اب وہ بچتی کیوں اور کس کس سے بچتی۔  پہلے میری ہی تو وہ عزت تھی اور اب وہ تو اپنی ہی نظر میں گر چکی تھی، بالکل میری طرح۔میں نے اس کی طرف دیکھا تو مجھے اپنی بہن ہی نظر آئی لیکن میرے جبلی جذبوں کو وہ حنا سے آسان حل لگی۔ اچانک حنا کے گھر کی دیوار پھلانگنا مجھے مشکل لگنا شروع ہو گیا۔ میں چلتا ہوا اس کے قریب پہنچا تو اس کے چوتڑے مجھے حنا سے بھی خوبصورت لگے۔میں نے اس کی شلوار اوپر کرنی چاہے  لیکن میرے ہاتھوں نے اس کی شلوار نیچے کردی۔ کچھ طاقتیں میرے ہی اندر ایسی تھی کہ وہ مجھ سے زیادہ طاقتور تھیں۔میں نے اس کے ننگے چوتڑ دیکھے تو میرا عضو تناسل رہا ہو گیا۔ میں اس کو فاطمہ کے چوتڑوں پر آہستہ آہستہ ملنے لگا۔ میر ا دل بری طرح دھڑک رہا تھا جیسے میں کو ئی غلط کام کر رہا ہوں۔ اس وقت فاطمہ تھوڑا سا ہلی اور مجھے لگا کہ وہ اٹھنے لگی ہے میں بیڈ کے ساتھ نیچے دبک گیا۔ فاطمہ اٹھ کر باہر چلی گئی۔ میں نیچے ہی دبکا رہا۔ وہ یقینا واش روم میں گئی ہو گی، میں نے سوچا۔ تھوڑی دیر بعد وہ آئی اور لیٹ گئی۔ میں دو منٹ بعد نیچے سے نکلا تو فاطمہ ہلکے  ہلکے  خراٹے لے رہی تھی۔ میں نے آہستہ سے اس کی شلوار نیچے کھسکائی اور اس کے چوتڑوں کے رخساروں کے درمیان اپنا موٹا تنا ہو ا عضو لگانے لگا۔ دل کرتا تھا کہ اس کے اوپر چڑھ جاؤں اور اس کی پھدی کے اندر اپنا پورا  پھولا ہوا پائپ گھسا دوں۔ میں اپنے آپ کو روک رہا تھا  لیکن لگتا تھا کہ یہ مشکل ہے۔ میں اس کے چوتڑوں کے اندر اپنا عضو بہت زور سے ہلا رہا تھا۔ میں مطمئین اس لیے تھا کہ فاطمہ جاگی نہ تھی۔ اگر وہ جاگ جاتی تو کیا ہوتا۔ اس نے شور تو نہیں مچانا تھا مگر مجھے بر ا لگتا کہ اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔میں زیادہ سے زیادہ زور سے اس کے چوتڑوں کے درمیان اپنا عضو گھسا رہا تھا اور تقریباً اس کی پھدی کے منہ کو چھو رہا تھا۔ مجھے حیرت تھی کہ فاطمہ سو رہی تھی۔ شاید کالج اور پھر گھر کے کام کاج کے بعد بہت تھک جاتی تھی۔ میں لگا رہا حتی کہ میرے عضو نے مجھے ایک زوردار بجلی کا جھٹکا دیا جو میرے پورے جسم میں پھیل گیا۔ وہ سفید مادہ میں نے اس کی ٹانگوں پر ہی رہنے دیا اور آہستہ سے اس کی شلوار اوپر کر دی۔میں ایک خوشگوار حیرت کا شکا ر تھا کہ فاطمہ نہیں اٹھی اور اس کو پتہ بھی نہیں چلا۔ مجھے لگا کہ اب میں حنا سے بھی زیادہ مزہ سوئی ہوئی فاطمہ سے کر سکتا ہوں۔ فاطمہ تو ہر وقت میرے گھر میں موجود تھی اور سوائے اعتماد کو ٹھیس پہنچنے کے کوئی دیگر مسئلہ بھی نہیں تھا۔ اعتماد کو ٹھیس بھی کوئی اتنا مسئلہ نہیں تھا  ان خطوں کو پڑھنے کے بعد۔میں اپنے کمرے میں آکر آرام سے سو گیا اور دوپہر دو بجے کے قریب اٹھا۔
حنا کے درجن کے قریب میسج آئے ہوئے تھے۔ میں جب باہر  آیا تو حنا کی امی باہر بیٹھی تھی۔ ایک دفعہ تو میں سخت ڈر گیا۔ کیا حنا نے اپنی امی کو شکائت لگا دی تھی؟ اس وقت تو بہت مزے لے رہی تھی۔
’اے ہے بیٹا، ادھر دیکھ بیگم رقیہ آئی ہیں، میں نے آنٹی جہاں آرا کو کہا تھا  کہ کسی نے ٹیوشن پڑھنی ہوبتانا کہ  تو ہمار ا عمران تو ہر وقت کچھ نہ کچھ پڑھتا ہی رہتا۔بیگم رقیہ چاہتی ہیں کہ تم ان کی بیٹی حنا کو ٹیوشن پڑھا دیا کرو۔‘اماں بی بی نے کہا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔  میں بڑی عزت سے بیگم رقیہ کو  آداب کہا۔
’جیتے رہو، بس اپنی چھوٹی بہن فاطمہ ہی کی سمجھنا میری حنا کو۔‘انھوں نے  بڑے پیا ر سے کہا۔
’جی، بالکل، بالکل۔‘ اب میں ان کو کیا بتاتا اور وہ کیا سمجھتی۔ لیکن میں حنا کی اس زبردست کامیابی پر اس کا پورے دل سے مشکور تھا کہ  اب وہ روز مجھ سے ملنے آسکے گی اور وہ بھی بغیر کسی روک  ٹوک کے۔
اسی وقت فاطمہ کالج سے واپس آئی اور اس نے بھی بیگم رقیہ کو آداب کہا۔
’تم بھی تو حنا کے ساتھ ہی کالج میں ہو نا؟‘بیگم رقیہ نے پوچھا۔
’جی آنٹی۔‘  فاطمہ نے جواب دیا اور کچن کے کام کرنے کے لیے بڑھ گئی۔
ٓبیگم رقیہ تو چلی گئیں،  لیکن مجھے خوش کر گئیں۔ میں نے مزے سے فاطمہ کے ہاتھ کے بنے پراٹھو ں کا ناشتہ کیا اور اپنا ناول پڑھنے لگا۔
شام کو چھ بجے بیگم رقیہ حنا کو لے کر آئیں۔
’کیا حال ہیں عمران بھائی؟‘حنا نے اپنی ماں کے سامنے  مجھ سے پوچھا۔
’بالکل ٹھیک ہوں حنا بہن۔ آپ کو ٹیوشن کے لیے خوش آمدید کہتا ہوں۔‘ میں نے کل کی گیم سے یہ تو سیکھ لیا تھا کہ حنا اپنی ماں کو مکمل یقین دلا دینا چاہتی ہے کہ یہاں کو ئی اور مسئلہ نہیں ہے۔  میں بھی لکھنو کے نوابوں کی طرح ہر ممکن قسم کے آداب کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ آخر میں مکمل طور پر حرامزادہ تھا اور حنا کسی طور مجھ سے کم نہیں تھی۔
بیگم رقیہ آدھ گھنٹہ ہمارے پاس بیٹھی رہیں اور جب انھوں نے دیکھ لیا کہ حنا نے انگلش کی کتاب نکال لی ہے اور میں اس کو سمجھارہا ہوں اور پڑھا رہا ہوں، تو وہ  میرے کمرے سے اٹھ گئیں اور اماں بی بی کے پاس بیٹھ گئیں۔
جوں ہی وہ اٹھی تو حنا نے ہاتھ آگے کیا اور میں نے ہا تھ اس کے ہاتھ پر مارا۔  اس دن وہ بس پڑھتی رہی کیونکہ اس کی امی باہر ہی بیٹھی تھی اور کسی وقت بھی آسکتی تھی۔  اس نے مجھے جاتے ہوئے ہونٹوں پر بوسہ دیا  جیسے تسلی دے کے جا رہی ہو کہ امی کب تک ساتھ آئیں گی۔ مجھے بھی اندازہ تھا کہ وہ ایک دو روز تک ہی وقت دے سکیں گی۔ بیگم رقیہ نے حنا کی فیس اماں بی بی کو دی تو انھیں لگا کہ ان کا عمران  نکھٹو نہیں ہا بلکہ کماؤ پوت بن گیا ہے۔
رات کے تین بجے پھر میری آنکھ کھل گئی اور میں فاطمہ کے کمرے میں پہنچ گیا۔ سب سے پہلے میں نے اس کے پرسکون چہرے کو دیکھا جو مدھم روشنی میں انتہائی خوبصورت لگ رہا تھا۔ مجھے لگا کہ جیسے خواب میں وہ یہ سب کچھ محسوس کرتی ہو گی۔مجھے اب محسوس ہونے لگا کہ جیسے وہ میرا ہی انتظار کر رہی ہو۔مجھے لگا کہ وہ چاہتی ہے کہ میں اس کی پھدی میں اپنا موٹا اوزار گھسا دوں اور اس کو خوب مزہ کراؤں۔مجھے پتہتھا کہ یہ سب میری حیوانی جبلت کر رہی تھی۔ میں نے اس کے باریک کپڑوں کے اوپر سے اس کی چھاتیوں کو ملا اور بڑی دیر تک اس کے ہونٹوں پر اپنا عضو چھوتا رہا کہ جیسے وہ اس کو ابھی منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دے گی۔اس کا منہ ہلکا سا کھلا تو اس کے ہونٹوں کا گیلا پن میرے کھڑ ے ہوئے نیزے کو سیراب کرنے لگا۔ پھرمیں نے سکون سے آہستہ آہستہ اس کی پوری شلوار اتار دی۔ میں نے پھر اس کی قمیض بھی اوپر کی اور اس کی چھاتیوں کو ننگا کر لیا۔ اس نے چولی نہیں پہنی تھی یا رات کو سونے سے پہلے اتار دی ہو گی۔ میں بڑی دیر اس کی چھاتیوں کو آہستہ سے چھوتا رہا۔ جب وہ نہ اٹھی تو میں نے اس کے پستانو ں کو منہ میں لیا اور آہستہ سے چوسا۔میں ایسے محو تھا کہ جیسے یہ تو میر ی اپنی چیز ہو۔ میرا عضو مکمل طور پر تنا ہوا تھا۔ اس دوران اس نے کروٹ لی اور الٹی ہو کر سو گئی۔ میں نے اپنے  جانور کو اس کے چوتڑوں کے رخساروں پر ملا اور مزہ کیا اور پھر اس کے چوتڑوں میں اپنا عضو گھسانے لگا  اور تقریباً اس کی پھدی  میں داخل کر دیا اور مزے سے ہلتا رہا  اور پھر اپنا سفید مادہ اس کے چوتڑوں پرمل دیا۔ آج میں گذشتہ کل سے زیا دہ مزے میں تھا اور میں نے بڑے اعتماد سے  اس شلوار  اس کو پہنا ئی اور  قمیض نیچے کھینچ دی۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کس میں زیادہ مزہ کرتا ہوں، حنا کے ساتھ یا فاطمہ کے ساتھ۔  میرا دل کر رہا تھا کہ فاطمہ کے ساتھ کھیلوں جیسے میں حنا کے سا تھ کھیل سکتا تھا۔ اگر حنا مجھے کوئی گیم سکھا سکتی تھی تو میں فاطمہ کو ئی گیم سکھا سکتا تھا۔میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے کس طریقے سے فاطمہ کو اپنے لیے تیا ر کرنا ہے۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی میر ے ساتھ کچھ نہ کچھ تو کرے گی ہی اور اگر وہ بھی مجھے اپنے بھائی کے علاوہ کسی نظر سے دیکھنے لگی ہے تو اس کواور ہی مزہ آئے گا۔
اگلے دن آتے ہی حنانے میرے کمر ے کا دروازہ بندکر دیا۔ وہ میرے پاس بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر لی۔ اس کی گیم جاری تھی۔
میں نے فوراً اس کی زپ کھول دی اور اس کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ وہ دل وجان سے میرے لیے حاضر تھی۔ میرے ہاتھ کمر سے اس کی چھاتیوں تک پہنچ گئے اور میں اس کی نرم وگداز چھاتیوں کو چھونے لگا۔  اس کی چھاتیاں فاطمہ کی چھاتیوں سے چھوٹی تھی لیکن پھر بھی ہا تھ بھر نے کے علاوہ بھی بچ جاتی تھی۔میں نے ہاتھ بھر کر انہیں پکڑا ہی تھا کو میرے کمرے کا دروازہ کھٹکا۔ فوراً میں نے حنا کو چھوڑ دیا اور حنا نے جھپٹ کر کتاب تھام لی۔
’ارے بیٹا یہ دیکھو، تمھاری تین اور سٹوڈنٹ لائی ہوں۔‘ اماں بی بی نے ایک ہی دن میں تین اور لڑکیاں ڈھونڈ لی تھی ٹیوشن کے لیے! میں حیران تھا اور پریشان بھی کہ ابھی تک حنا کی زپ کھلی تھی اور گو را چہرہ سرخ ہوا ہوا تھا۔ جب میں نے ان تینوں لڑکیوں کو دیکھا تو پریشان اور حیران سے زیا دہ خوش ہو گیا۔ تینوں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت تھیں۔ دو نے تو بغیر بازو کے قمیض پہن رکھی تھی  اور ان کی خوبصورت چھاتیاں مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔ یہ لڑکیا ں میرے ہی گھر کے ارد گرد رہتی تھیں لیکن میں نے کبھی  غور نہیں کیا تھا۔ میں اس وقت حرامزادہ نہیں تھا، بلکہ عام لڑکا تھا اور عام لڑکے کی نظر تو شرم سے تھوڑی جھکی رہتی ہے کیونکہ اس کی تو اپنی بہنیں ہوتی ہیں۔ میر کو ئی بہن نہیں تھی اور میں آزاد تھا اس معاشرے کو اصولوں سے۔وہ سیانے اور بیوقوف سبھی کہتے ہیں کہ حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے  اور میری آنکھ اب حسن سے آشنا ہونے لگی تھی۔ حنا ان تینوں سے گلے ملی اور جب وہ گلے ملتی تو اس کی چھاتیاں  ان کی چھاتیوں میں دب جاتی۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا اور مجھے نیچے کچھ ہونے لگا۔ کہتے ہیں لڑکیوں کو گندی نظروں کا فوراً ادراک ہو جاتا ہے۔ یقینا عظمیٰ، شازیہ اور نادیہ کو بھی یہی لگا ہو گا۔
اماں بی بی کا کاروبار چمک اٹھا اور میر ی قسمت۔ حنا کی زپ شازیہ نے بند کر دی اور حنا نے یوں ظاہر کیا کہ جیسے وہ زپ بند کرنا ہی بھول گئی ہو۔
میں نے سب کو  پڑھانا شروع کر دیا۔ مجھے بہت کم موقع ملتاکہ حنا کے ساتھ کھیل سکوں۔ جب وہ سب سے  پہلے آجاتی تو آ کر آنکھیں بند کر لیتی۔ یہ اشارہ تھا کہ میں جو مرضی کروں۔ میں اس کے سینے کے ابھاروں کو دباتا اور کبھی اس کی شلوار میں ہاتھ ڈال کر اس کی پھدی مسلتا۔ وہ چپکے اس مزہ لیتی رہتی۔ ایک  دن  اچانک شازیہ اندر آگئی  اور میں اتنا محو تھا کہ مجھے پتہ ہی نہ چلا۔ حنا کی آنکھیں بند تھی، اس کو پتہ نہ چلا کہ شازیہ نے میرے ہاتھ اس کی چھاتیوں پر دیکھ لیے ہیں۔ شازیہ فوراً رک گئی اور دروازہ بند کر کے دوبارہ ہلکا سا کھٹکایا۔ میں نے حنا کو چھوڑ دیا اور حنا ویسے ہی شازیہ سے ملی جیسے عام طور پر ملتی تھی۔ شازیہ بہت تیز تھی۔ اس نے سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ اس کو پوری کہانی تو نہ پتہ تھی لیکن اگلے دن وہ سب سے پہلے آگئی اور میرے پاس بیٹھ کر آنکھیں بند کر لی۔ میں حیران ہو گیا اور ساتھ ہی تھوڑا پریشان بھی۔ شازیہ کا رنگ تھوڑا سانولہ تھا لیکن چھاتیا ں بڑی جاندار اور تنی ہوئی تھی۔ میں نے آہستہ سے اس کی چھاتی پر ہاتھ رکھا کہ وہ کیا کرتی ہے تو وہ  اتنی خوش ہوئی کہ اس نے میرے ہونٹوں پر بوسہ لے لیا اور پھر سے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔ میں نے اس کی چھاتیوں کو دبایا اور اس کی بازؤں کے بغیر قمیض کے بغل سے ہاتھ اندر ڈال کر اس کی چھاتیوں کو چھونا چاہا لیکن قمیض زیادہ پھسی ہونے کی وجہ سے میرا ہاتھ اندر نہ جا سکا۔مجھے سمجھ بھی نہیں آیا تھا کہ شازیہ اپنی قمیض اور چولی اتار چکی تھی اور اپنی چھاتیاں میرے منہ میں دے رہی تھی، جب میں نے اس کا نپل منہ میں لیا تو میں مکمل طور پر تن چکا تھا۔ میں اس کو چوس رہا تھا تو وہ کہہ رہی تھی۔
’اور  زور سے چوسیں سر اور زور سے۔‘ پھر اس نے خودہی، ٹراؤزر کے اوپر سے، اپنا ہاتھ میرے عضو تناسل پر رکھ لیا۔’کتنا بڑا ہے آپ کا  سر، مجھے کب دیں گے سر۔ یہ مجھے دیں نا  سر۔‘اب مجھے اندازہ ہوا کہ ہر لڑکی کتنی مختلف ہوتی ہے اور ہر ایک کا اپنا ہی ایک مزہ ہے۔ وہ میرے سر کو اپنی چھاتیوں میں دبا رہی تھی اور میرے عضو تناسل کو بڑے پیار سے چھو رہی تھی۔ ایک طرف شازیہ تھی اور دوسری طرف حنا۔ یہ فوراًگرم اور وہ  آہستہ سے گرم ہونے والی۔ آج تک حنا نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا جیسے شازیہ نے کر دیا تھا۔ شازیہ نے اپنی جگہ بنا لی تھی۔ میں مزے سے اس کی چھاتیوں کو چوستا رہا  اور وہ بھی مزے سے چوسواتی رہی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ٹراؤزر کی زپ کھول کر میرے مردانہ پن کو باہر نکال لے اور اس کو اپنی پھدی میں ڈال لے۔ مجھے لگا کہ وہ یہ سب کچھ پہلے بھی کر چکی ہے۔ اب باقی لڑکیوں کے آنے کا وقت ہو چکا تھا۔ شازیہ نے خود ہی وقت دیکھا اور اس سے پہلے کے مجھے سمجھ میں آتا وہ اپنی چولی اور قمیض پہن چکی تھی۔ پھر اس نے جھک کر میر ے ٹراؤزر کی زپ کھولی اور میرے تنے ہوئے لالی پاپ کو باہر نکالا اور اپنے منہ میں لے کو یوں چوسا جیسے وہ واقعی کوئی لالی پاپ ہو۔ اس نے تھوڑا سا چوس کر زپ بند کر دی اور ایسے بیٹھ کر کتاب کھول لی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ پھر اس نے سر اٹھایا اور ایسی مسکراہٹ کے سا تھ مجھے دیکھا کہ میں بھی بے ساختہ مسکرا اٹھا۔ اب تک  شازیہ  اس گیم کی سب سے زور دار کھلاڑی نکلی تھی۔ جب باقی لڑکیاں آگئیں تو بس پڑھائی پر ہی توجہ رہی۔امتحان قریب آنے کی وجہ سے سب لڑکیوں کی توجہ پڑھائی کی طرف تھی۔ سب سے زیادہ میں دلچسپی لے رہا تھا کیونکہ پیسے تو اگرچہ اماں بی بی نے لے لیے تھا، دل تو میرا لگ رہاتھا اس کام میں۔اب میں سوچنے لگا تھا کہ ایم اے کر کے کہیں لیکچرر لگ جاؤں گا تو میرا مشغلہ ہمیشہ چلتا رہے گا۔مجھے شازیہ کی مسکراہٹ یا د ہے جب عظمیٰ نے اس کو کہا کہ اس کی لپ سٹک تھوڑی اتری ہوئی ہے۔
اس دن رات کو میں نے کھانے کے بعد فاطمہ کو بلایا۔ مجھے اب بھی فاطمہ سے جھجک تھی اگرچہ میں تقریباً روز رات کو اس کی چھاتیاں چوستا تھا اور اس کی پھدی تک میں تھوڑا سا گھس جاتا تھا۔
’فاطمہ، میری کمر اور ٹانگوں میں درد ہے، ذرا دبا دینا۔‘ میں نے کہا۔ میرا خیا ل تھا کہ وہ نہ کہہ دے گی لیکن اس نے اچھا کہا اور برتن کچن میں چھوڑ آئی۔  اس کے کپڑے پسینے سے بھیگے ہوئے تھے۔ میں الٹا لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لی۔اس نے آکر مجھے دبانا شروع کر دیا۔ اس نے میری کمر دبائی تو بڑا مزہ آیا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے نرم ہاتھ جب میری کمر کو لگتے تو اچھا لگتا تھا۔
 ’فاطمہ میں ذرا قمیض اتار لوں۔‘یہ کہہ کر میں نے قمیض اور بنیان دونوں اتار دی۔
فاطمہ مجھے پھر دبانے لگی۔ اب اس کے ہاتھ میرے جسم سے چھونے لگے تو زیادہ مزہ آنے لگا۔ وہ بڑی دیر دباتی رہی۔ پھر اس نے میری ٹانگیں دبای شروع کر دی۔ مجھے بہت مزہ آرہا تھا۔ میرا  عضو موٹا ہو چکا تھا۔ٹانگیں  پیچھے سے دبا تے ہوئے جب وہ میرے چوتڑوں کے پاس آتی تو مجھے گدگدی سی ہوتی اور مزہ بھی آتا۔ جب میں نے الٹا لیٹ کر دبوا لیا تو میں سیدھا ہو گیا۔
’فاطمہ اب کھڑی ہو کر پیروں سے دبا دو۔‘میں نے کہا تو فاطمہ کھڑی ہو گئی۔ اس نے دیوار کا سہارا لیا اور  کھڑی ہو کر پیروں سے میری ٹانگوں کو دبانے لگی۔ جب وہ اوپر کی طرف آتی تو اس کے پیر میرے عضو تناسل سے چھو جاتے۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ بس دبائے ہی جا رہی ہے اور اس بات کی اس کو پرواہ نہیں کہ اس کا پیر میرے کھڑے ہوئے کھمبے سے چھو رہا ہے۔
’میں بیٹھ کر ہی دبا دیتی ہوں۔‘فاطمہ نے کہا اور بیٹھ کر پہلے میرے بازو دبائے۔ میں آنکھیں بند تھی او ر وہ میرے بائیں طرف بیٹھی ہوئی تھی۔ جب و ہ میرے دائیں بازو کو دبانے کے لیے آگے کو ہوئی تو اس کے بڑے بڑے ابھار میرے منہ کے بہت قریب آگئے۔ میں نے آنکھیں کھولی اور بہت کوشش کی کہ رک جاؤں مگر پھر بھی نہ رک سکا اور منہ تھوڑا سا اٹھا کہ ہلکے سے ہونٹ اس کے ابھاروں کو لگائے۔ مجھے شک تھا کہ اس کو کرنٹ لگے گا اور وہ پرے ہٹ جائے گی۔ لیکن اس نے کچھ بھی نہیں کہا۔ وہ میرے دائیں بازو کو دباتی رہی اور اس کے بڑے بڑے ابھار میرے منہ پر منڈلاتے رہے۔ کیا نظارہ تھا! جب وہ میرے بازو دبا چکی تو ٹانگیں دبانے لگی۔ ’اب تو اس کو مکمل اندازہ ہو جائے گا کہ میرا عضو کھڑا ہے اور پھر وہ کیا کرے گی؟‘ میرے ذہن میں سوال آیا۔ میں اس انتظار میں تھا کہ وہ کیا کرے گی، کیا ہاتھ لگائے گی یا مجھے شکایت کرے گی یا اماں بی بی کو بتائے گی۔ وہ آرام سے میرے ٹانگیں دباتی ہوئی اوپر آئی اور میرے عضو کے ارد گرد بھی اس نے دبایا اور اس ہاتھ بھی اس کو لگے لیکن وہ اپنی رفتار سے دباتی ہوئی پیروں کی طرف چلی گئی۔ جب وہ دوبارہ اوپر آئی تو اس بار اس نے زیا دہ سکون سے مجھے دبایا اوراس کے ہاتھ میرے عضو کو بھی چھو گئے اور مجھے بہت مزہ آیا۔ وہ اس ہی طرح دباتی رہی اور میں سو گیا۔ مجھے نہیں پتہ کہ وہ کب گئی لیکن اس رات میری آنکھ بھی نہیں کھلی۔
اگلی صبح اتوار تھی۔ میں نو بجے کے قریب اٹھا اور نہانے چلا گیا۔واش روم میں میرے ذہن میں ایک اور گیم آئی اور میں نے فاطمہ کو آواز دی۔ وہ کچن میں تھی  لیکن فوراً ہی آگئی۔وہ واش روم کے باہر کھڑی تھی اور دروازہ ہلکا سا کھلا تھا۔
’جی، عمران‘ فاطمہ نے ہمیشہ کی طرح بڑے پیا ر سے پوچھا۔ اس نے وہ خط والے کے واقعہ کے بعد مجھے بھائی کہنا بالکل چھوڑ دیا تھا۔
’فاطمہ مجھے کمر پر صابن تو مل دینا۔‘اکثر لوگوں کا ہاتھ پوری کمر پر نہیں پہنچتا اگرچہ کہ میرا پہنچ  جاتا تھا۔ میں نے بہانے کو معقول جان کر نیا پتہ پھینکا۔
’جی، بس روٹی چولہے سے اتار کر آئی۔‘  فاطمہ میرے ساتھ کھیلنے لگی تھی۔ اب مجھے انتظار اس وقت کا تھا کہ جب و ہ بھی کچھ گیم میں حصہ ڈالے گی۔ وہ بس کھیل رہی تھی اور میری گیم کا لطف لے رہی تھی۔ اگر وہ خود کچھ نہ کرتی اور صرف کھیلتی ہی رہتی تو مجھے منظور تھا۔
وہ تھوڑی دیر بعد آئی اور دروازے پر دستک دے کر بولی۔
’میں آجاؤں؟‘
’ہاں۔‘
میں بالکل ننگا تھا اور میں نے دوسری طرف منہ کیا ہوا تھا۔اس نے پانی کا ڈبہ میرے جسم پر انڈیلا  اور میر جسم گیلا کیا۔ فاطمہ نے صابن اٹھایا اور میری کمر پر زور زور سے ملنے لگی۔ جب وہ کمر پر مل رہی تھی تو اس کے ساتھ واش روم میں ننگے ہونے کا احساس بڑا مزیدار تھا۔ میر ا عضو خاص ہوا میں لہرا رہا تھا۔
’بس۔‘اس نے کمر پر لگا کر کہا۔
’باقی جسم پر بھی لگا دو۔‘
’جی اچھا۔‘
فاطمہ نے کہا اور بیٹھ کر میری ٹانگوں پر صابن لگانے لگی۔ اس نے میرے چوتڑوں پر بھی صابن لگایا اور زور زور سے ملا۔ وہ ایسے مل رہی تھی جیسے برتن چمکاتے ہیں۔ پھر وہ اٹھی اورمیرے سامنے آکرمیرے سینے پر صابن لگانے لگی۔ اس کی نظریں میرے جسم پر ہی رہیں اور اس نے ایک بار بھی میری آنکھو ں کی طرف نہیں دیکھا۔  اس کے اپنے کپڑے بھی گیلے ہو گئے تھے اور کئی جگہوں پر جسم سے چپک رہے تھے۔ میرے سینے اور پیٹ پر صابن لگا کر وہ نیچے بیٹھ گئی اور ٹانگوں پر صابن لگانے لگی۔ میر ا تنا ہوا  عضو اب جھٹکے لے رہا تھا اور جب وہ ٹانگوں پر زور سے صابن لگاتی تو وہ اور بھی زور سے ہلتا۔ وہ اس کے منہ کے بالکل سامنے تھا اور وہ یقینا اس کو دیکھ سکتی تھی لیکن وہ ایسے تھی جیسے اس کو نظر ہی نہ آرہا ہو یا جیسے وہ کسی بچے کو نہلا رہی ہو۔ میں نے سوچا کہ کیا وہ اس کو ہا تھ لگائے گی؟ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے اس پر صابن لگانا شروع کر دیا۔ اس نے صابن لگا کر زور زور سے اس کو ملا اور نیچے میرے گیندوں کو بھی صابن لگا کر خو ب ملا۔ پھر و ہ دوبارہ میرے عضو کو ملنے لگی۔ اس نے پورے جسم کو تو ملا ہی تھا لیکن اب جس جگہ کو وہ مل رہی تھی وہ مجھے سب سے اچھا لگ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے ملنا چھوڑ دیا۔ مجھے لگا کہ اب وہ اٹھ جائے گی لیکن اس نے دوبارہ صابن لیا اور پھر میرے عضو کو دونوں ہاتھوں سے ملنے لگی۔ اب میر ا سانس مشکل ہو گیا تھا لیکن وہ بڑے مزے سے میرے عضو کو ایک ہاتھ میں پکڑ کر ملتی اور پھر دوسرے ہاتھ میں لے لیتی اور ملتی۔اب اس کو مکمل پتہ تھا کہ ہم کیا گیم کھیل رہے ہیں۔ صابن کی بہت جھاگ بن رہی تھی لیکن اس نے پرواہ نہ کی۔ وہ دس منٹ تک میرے عضو کو ملتی رہی حتی کہ میرا سفید مادہ  باہر اچھل پڑا اور اس کے منہ پر گرا۔ اس نے اس کو  تھوڑا سا اور ملا اور پھر اٹھ کر اپنا منہ دھویا اور میرے اوپر پانی ڈال ڈال کر ملنے لگی۔ سارا صابن اتار کر اس نے تولیے سے میرے جسم صاف کیا۔ جانے سے پہلے اس نے میرے سینے پر ایک بوسہ دیا اور باہر چلی گئی۔ میں نے ناشتہ کیا اور ناول پڑھتے پڑھتے گہری نیند سو گیا اور پانچ گھنٹے سو یا رہا۔ فاطمہ تین بجے دوپہر کا کھانا لائی اور میں کھا کر پھر سو گیا۔
شام کے چھ بجے  تھے اور میں سویا ہوا تھا۔ جب مجے لگا کہ میرے ہونٹوں پر کسی نے بوسہ دیا ہے۔ میں نے سوچا کہ فاطمہ بڑی بہادر ہو گئی ہے۔ میں نے آنکھیں کھولی تو دیکھا کہ حنا آئی ہوئی ہے اور میرے اور جھکی ہوئی ہے۔
’تم۔۔‘ میں حیران رہ گیا کہ وہ چھٹی کے دن کیا کر رہی ہے۔
’میں نے امی کو کہا کہ امتحان قریب ہے،  سر نے بلایاہے اورانھوں نے کہا ٹھیک ہے۔‘حنا  بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ اس نے سیدھے بیٹھتے ہی آنکھیں بند کر لی۔میں نے فوراً اس کی زپ کھولی اور اس کی گوری کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ میں نے اس کے چولی کے ہک کھول دیے۔ پھر اس کی قمیض کے اوپر سے ہی میں نے اس کے سینے کے ابھاروں کو بوسے دئیے اور دانتوں سے اس کے کھڑے ہوئے  نپل کاٹے۔ یہ ایک نیا کام تھا اور اس کو بہت اچھا لگا اور اس نے آہ آہ کیا۔ میں بستر سے اٹھ گیا اور اس کے سامنے آگیا۔
’کھڑی ہو جاؤ۔‘وہ ایسے کھڑی ہو گئی جیسے کو ئی معمو ل اپنے عامل کی بات پر عمل کرتا ہے۔
’بازو اوپر کرو۔‘اس نے بازو  اوپر کر دیے۔ میں نے اس کی قمیض اوپر کر کے اتار دی۔ اب اس نے صرف چولی پہن رکھی تھی۔ میں نے چولی کے اوپر سے ہی اس کے نپل دانتوں سے بھنبھوڑے اور پہلے کھلی ہوئی چولی کو دانتوں میں دبا کر اس کو کمر سے اوپر ننگا کر دیا۔ اس کے پستانوں پر گلابی نپل کمال کے لگ رہے تھے۔میں نے اس کے ابھاروں کو دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور ان کو زور سے دبانے لگا، مسلنے لگا۔ مجھے بہت مزہ آرہا تھا۔ اسی وقت حنا نے شازیہ کی طرح میرا سر اپنے ہاتھوں میں لیا اور اپنے سینے کے قریب لائی اور نپل میر ے منہ میں ڈال دیا۔میں اس کے نپل چوسنے لگا مجھے بہت مزہ آرہا تھا۔ یو ں لگرہا تھا کہ نجانے کتنوں سالوں سے میں اس کے انتظار میں تھا۔
کچھ دیر بعد اس  نے میری قمیض اتار دی اور میرے پاجامے کو نیچے کر کے میرے عضو کو رہا کر دیا۔ اس نے دونو ں ہاتھو ں سے اس کو تھام لیا اور بڑے پیا ر سے اس پر ہا تھ پھیرنے لگی۔میں نے اس کے سینے کو اپنے سینے سے لگایا تو ایک ایسا سرور ملا جو کسی اور طریقے سے نہیں ملا تھا۔ اس کے ابھار میرے سینے کے ساتھ پچک گئے اور میں نے اس کو یو ں ہی تھامے رکھا۔ وہ میرے عضو کے سا تھ کھیل رہی تھی اور وہ مزید موٹا ہوتا جا رہا  تھا۔
’اپنی شلوار اتار دو۔‘
’آپ اتاریں نا۔‘ میرے معمول نے اپنے ہونے کا ثبوت دیا۔ میں نے جھٹ سے اس کی شلوار اتار دی۔وہ نیچے بیٹھی اور اس نے میرا پاجامہ بھی میری ٹانگوں سے علحدہ کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ اس نے آنکھیں کھولی اور میرے مردانہ پن کو دیکھا اور اس پر اپنی زبان لگائی۔ اس کی زبان میں ایک جادو تھا۔
اب اس سے رہا نہ گیا اور اس نے میرے عضو تناسل کو منہ میں لے لیا اور خو ب زور سے چوسا۔ وہ چوستی اور آہستہ سے کہتی، ’کتنا موٹا ہے یہ، کتنا لمبا ہے یہ، کتنا پیا را لن ہے آپ کا‘۔وہ تقریباً دس منٹ تک چوستی رہی۔
’کھڑ ی ہو  جاؤ۔‘وہ کھڑی ہو گئی۔ میں نے اس کی پھدی پر ہا تھ پھیرا تو وہ پوری گیلی تھی۔
’ادھر لیٹ جاؤ‘۔ اس نے لیٹ کر آنکھیں بند کر لی۔ اب میں نے اس کی پھدی کو زبان لگائی تو اس کا نمکین سا ذائقہ مجھے بڑا مزے دار لگا۔ اور پھر مجھے یا د نہیں کہ میں کتنی دیر اس کی پھدی کو چوستا رہا اور اپنی زبان کبھی اس کی پھدی میں گھساتا اور کبھی اس کے چوتڑ وں کے درمیان سوراخ میں۔حنا بار بار اپنی ٹانگوں کے درمیان میر ا سر پھنسا لیتی اور اسکی ٹانگوں کے پٹھے مجھے دباتے تو میں اور مزے سے اس کو چاٹتا۔میر ا عضو اب چاہتا تھا کہ وہ حنا کے اند ر گھس جائے اور اس کو خو ب مزہ کرے اور خود بھی خوب مزہ  کرے۔اس کی پھدی اب اتنی گیلی ہو چکی تھی کہ بہہ رہی تھی۔ میرے لعاب دہن اور اس کی اندام نہانی کے عرق نے گیلے پن کی انتہا کر دی تھی۔
’اب کھڑی ہو جاؤ۔‘میں نے حکم دیا۔
وہ ننگی بستر سے اتر کر کھڑی ہو گئی۔ مجھے لگا کہ جسے وہ بہت گرم ہو چکی ہے  او رخوشی اور مزے سے ہلکی ہلکی لرزرہی ہے۔ وہ سوچ رہی تھی اب آگے کیا ہو گا۔ اس کے چہرے پر ایک بے انتہا سکون تھا۔ آج کسی نے نہیں آنا تھا۔ جو حنا کب سے سوچ رہی تھی اور جو میں ہر وقت  حنا کے ساتھ، شازیہ کے ساتھ اور فاطمہ کے ساتھ کرنا چاہتا تھا، آج ہونیوالا تھا۔
’اپنا منہ بستر کی طرف کر لو۔‘میں نے تحکمانہ لہجہ جاری رکھا۔
اس نے ایسا ہی کیا۔
’چلو اب آگے کی طرف جھکو اور ہا تھ بستر پر یوں رکھو کہ کمر سیدھی ہو۔‘وہ بالکل میر ے حکم پر چلنے لگی تھی۔
اب میں اس پھدی کو پیچھے سے دیکھ سکتا تھا۔ میں نے جھک کر اس کے گیلے پن کو چکھا اور زبان اس کی پھدی پر پھیرنے لگا۔  میر ا عضو تناسل، جس کو حنا  لن کہتی تھی، اب اس کی پھدی پر لگنے کو تیا ر تھا۔ حنا نے بڑی حسرت اور امید سے اپنے چوتڑوں کو ہلایا کہ جیسے کہہ رہی ہو، ظالم اب تو دے دے۔ جب سے حنا نے میرے عضو کو  لن کہا تھا، میرا بھی دل کرنے لگ گیا تھا کہ اس کو لن کہوں۔
’میر ا لن اپنی پھدی میں لو گی؟‘میں نے پوچھا۔
اس نے ہاں میں سر ہلایا۔میں نے اپنا لن اس کی پھدی چھوا تو اس کو اچھا لگا۔
’اندر ڈالوں؟‘میں نے ستانے والے انداز میں کہا۔
’ہاں ہاں ڈال دو۔۔۔‘وہ منمنائی۔
’پورا اندر ڈال دوں؟‘میں نے پھر مزہ لیا۔
 ’ہاں پورا اندر ڈال دو۔ پورے کا پورا۔۔۔‘ حنا ہنہنائی۔
میں نے آہستہ آہستہ اس کی تنگ پھدی میں اپنا لن ڈالنا شروع کر دیا۔ مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔ اس کو بھی مزہ آرہا تھا۔
’کتنا موٹا ہے تمھارا عمران۔‘حنا کہہ رہی تھی اور میں ہل رہا تھا، جب دروازہ ہلا اور فاطمہ کھانے کا ٹرے اٹھائے اند ر داخل ہوئی۔ حنا کی آنکھیں بند تھی۔ میں بالکل ننگا تھا اور آج فاطمہ نے مجھے ننگا دیکھ ہی لیا ہوا تھا۔ اس نے ٹرے میز پر رکھی اور دروازہ  خاموشی سے بند کر دیا۔
میں ہل رہا تھا اور حنا بار بار میر ا نام لے کر کہتی، ’عمران تمھارا لن میری پھدی کو بہت مزہ دے رہا ہے۔ میں روز تمھارا لن لیا کروں گی۔ صبح کالج جانے سے پہلے، پھر کالج سے آکے  اور جب تم کہو گے میں اسی طرح جھک جایا کروں گی۔‘
فاطمہ اب ہمارے قریب آگئی تھی اور اس کی آنکھوں میں ایک حسرت تھی، ایک التجا تھی، ایک تمنا تھی اور ایک شرارت  بھی۔  میں چاہتے ہوئے بھی اس کو باہر نہیں بھیج سکتا تھا۔ حنا کو اس نے اس حالت میں دیکھ لیا تھا اور اس کے ہونٹوں سے میرے لن کی تعریف بھی سن لی تھی۔ یہ اچھا تھا کہ وہ واپس نہیں پلٹی تھی۔
وہ دیکھ رہی تھی  کہ کیسے میر ا لن جس کو اس نے آج صبح خوب ملا تھا، حنا کی پھدی میں جا رہا تھا۔ وہ پہلے تو دیکھتی رہی  پھر اس نے اپنی قمیض اتا ر دی۔ اس نے قریب پڑی ایک کرسی میرے قریب رکھی اور س پر چڑھ کر اپنی چھاتیا ں  میر ے قریب لے آئی۔ اس نے اپنی چولی بھی اتار دی۔ اب میر ے منہ میں اس کی پیارے پیارے بڑے بڑے چھاتی کے ابھاروں کے نپل تھے اور میں انہیں چو س رہا تھا۔ میں نیچے سے ہل رہا تھا اور حنا کہ آوازیں  آرہی تھی۔
’عمران، مجھے اتنا زور سے تو نہ کروں کہ میں زخمی ہی ہو جاؤں‘۔
’عمران زور سے، اور زور سے۔‘
’عمران اب بس کر دو، بس کر دو۔‘
’عمران بس نہ کرنا، ابھی بس نہ کرنا۔‘
کرسی پر چڑھ کر فاطمہ نے اپنی شلوار بھی اتار دی اور میر ا ہاتھ اس کی پھدی سے کھیلنے لگا۔ وہ پہلے سے ہی کافی گیلی تھی۔ مجھے لگا کہ اس نے جو مجھے واش روم میں ملا تھا،  و ہ وہی سوچ سوچ کر گیلی ہو رہی  ہو گی۔ فاطمہ کا جسم بہت لچکیلا تھا۔ اس نے میرے  منہ کو اپنی چھاتیوں میں خوب دبایا اور پھر حیرت انگیز طریقے سے میرے کندھوں پر اس طرح چڑھ گئی کہ اس کی پھدی میرے ہونٹوں اور زبان کو چھونے لگی۔ میں نے اس کی پھدی کے ہر حصے کو ہونٹوں سے چوسنا  شروع کر دیا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے میر ے سر کو مضبوطی سے اس طرح پکڑا ہوا تھا کہ اس کی چھاتیاں میرے سر سے چپکی ہوئی تھی۔ اگر اس کاوزن اتنا کم نہ ہوتا یا میری گردن اتنی مضبوط نہ ہوتی تو یہ پوزیشن نہ بن پاتی۔ فاطمہ کی جمناسٹک کا آج فائدہ نظر آیا۔ اب میرا لن بھی پھدی کے مزے لے رہا تھا اور میرے منہ میں بھی وہی مزہ تھا۔ مجھے لگا کہ یہ بہت اچھا ہے۔ حنا چلی بھی گئی تو یہ پھدی تو ہر وقت میں لے سکتا ہوں۔  یہ سوچ کر میں نے اور ہی مزے کے ساتھ اس کو چوسنا شروع کر دیا۔ فاطمہ بھی اب پوری طرح گیلی ہو گئی تھی  اور اس کی پھدی بھی میرا لن لینے کو ترسنے لگی تھی۔ فاطمہ میرے گلے سے نیچے اتری اور میر ے لن اور حنا کی پھدی کو زبان سے چھیڑنا شروع کر دیا۔
اس میرا لن  حنا کی پھدی سے نکال لیا اور اپنی منہ میں ڈال کر میر ی آنکھو ں میں یو ں دیکھا کہ جیسے کہہ رہی ہو کہ اب میری باری ہے۔
جب لن حنا کی پھدی میں سے نکلا تو اس نے آنکھیں کھولی۔ جب اس نے فاطمہ کو ننگے دیکھا تو سیدھی ہو کر اس کے قریب آئی اور اس کی چھاتیوں کو چوسنے لگی۔ فاطمہ نے میرا  لن اپنے منہ میں سے نکالا اور حنا کے منہ کو اپنی چھاتیوں سے اٹھا کر اس کے منہ میں  لن ڈالا کہ لو تم بھی چوس لو۔  فاطمہ اب بازو بستر پررکھ کر یوں کھڑی ہو گئی جیسے پہلے حنا کھڑی تھی۔
حنا نے میر ے لن کو زبان سے گیلا کیا۔ پھر اس نے فاطمہ کی پھدی پر زبان پھیری اورمیرا لن اس میں ڈال دیا۔ فاطمہ کی پھدی بھی بہت کسی ہوئی تھی اور تنگ تھی۔ اب میں فاطمہ کی پھدی میں لن کو ہلانے لگا اور حنانے میر ی کمر پر اپنی چھاتیوں کو لگانا شروع کر دیا۔ وہ میرے لن کے شروع کے حصے اور گیندوں کو چوسنے لگی۔ جب میں نے کافی دیر فاطمہ کو  چود  لیا تو حنا  اس کی برابر میں آکر اسی پوزیشن میں آگئی۔ میں نے لن نکال کر حنا کی پھدی میں ڈال دیا اور زور زور سے ہلنے لگا۔ اب فاطمہ بھی اپنے چوتڑوں کو ہلا رہی تھی کہ لن ادھر ڈالو۔ میں نے لن حنا سے نکال کر فاطمہ میں ڈال دیا۔میں اب زور زور سے ہل رہا تھا۔ اب حنا اپنے چوتڑے ہلانے لگی کہ لن ادھر دو۔ میں تھوڑی تھوڑی دیر دونوں کی پھد ی میں ڈالتا اور ہلتا۔ یہ سلسلہ کافی دیر چلتا رہا اور پہلے حنا کو مزہ آیا اور اس کو ایک کرنٹ سا لگا اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد فاطمہ بھی مزے سے آہیں بھرنے لگی۔
میں نے حنا کے منہ کو منتخب کیا اور اس میں اپنے لن کو ہلانے لگا حتی کہ مجھے بھی ایک جھٹکا سا لگا اور میرا سفید مادہ اس کے منہ پر چپک گیا۔
ہم تینوں فرس پر ہی لیٹ گئے۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ کھانا میز پر پڑا ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ میں اٹھا اور پاجامہ پہن کر واش روم چلا گیا۔ اماں بی بی عادت کے مطابق نو بجے سو جاتی تھی۔ میں نہانے لگا  اور ٹھنڈا پانی مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ میں نہاتا رہا اور ٹھنڈا ہوتا رہا۔ دونوں لڑکیاں اب باتیں کر رہی تھی۔ مجھے تجسس ہوا کہ وہ کیا باتیں کر رہی ہیں۔ان کی ساری باتوں کی آواز تو نہیں آرہی تھی  بس کچھ لفظ سمجھ آجاتے تھے۔
’کتنا بڑا ہے نا‘
’مجھے لگا اند ر سے پھٹ جاؤں گی‘
’بڑا مزہ آیا‘
ہنسنے کی آواز۔
سرگوشی جو سمجھ نہ آئی۔
’میں تو اب روز لیا کروں گی‘
ایک قہقہہ۔
میں پھر پانی جسم پر ڈالنے لگا۔
’۔۔ خط  بدلنے  کا آئیڈیا۔۔۔‘
میں رک گیا۔
’بھیا مجھے تو کبھی ہاتھ نہ لگاتے۔۔‘  فاطمہ کہہ رہی تھی۔
’دیکھاپھر معصوم شکل کے فائدے۔۔‘حنا کہہ رہی تھی۔
مجھے لگا کہ میں واش روم میں گر جاؤں گا۔
میرے دماغ میں سب کچھ چکرانے لگا۔
وہ خط میرے دماغ میں گھوم گئے۔
میں تو حنا کو روز پڑھاتا تھا۔
وہ  خط پرانے زمانے کے نہیں تھے۔ وہ لکھائی حنا کی تھی۔
فاطمہ اور حنا ایک دوسرے کو کالج سے جانتی تھی۔
سب کچھ میری نظروں کے آگے گھوم گیا۔
حنا اس وقت جان بوجھ کر آئی تھی، ماچس لینا تو محض ایک بہانہ تھا۔
ٹیوشن کا خیال فاطمہ نے اماں بی بی کے ذہن میں اڈالا تھا۔
کیا باقی لڑکیاں بھی ان کی سہیلیاں تھی؟
۔
۔
 ’میں رات کو تین بجے کے قریب بھیا کا  لن چوستی اور تھوڑی دیر بعد بھیا آجاتے لیکن میں سوئی بنی رہتی۔‘
ایک قہقہہ۔
میں اتنا بیوقوف تھا۔ رات کو تین بجے میرا حرامی تن کیوں جاتا تھا؟ فاطمہ کا دروازہ کیوں کھلا ہوتا تھا؟ میں اسکی  شلوار تک اتار دیتا  اور اس کی نیند نہیں کھلتی تھی؟ وہ خراٹے سب جعلی تھے۔
ان لڑکیوں نے مجھے میری ہی نظر میں حرامزادہ بنا دیا تھا۔ میں جو کبھی یہ سب کچھ سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ میں وہ سب کچھ کر چکا تھا جو میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
۔
۔
’سر زوہیب بھی تو چکرا گئے تھے نا۔۔‘
حنا  اور فاطمہ کا  ایک اور قہقہہ۔
۔
۔
میں پہلا نہیں تھا۔ وہ اور لوگوں کے ساتھ بھی یہ کر چکی تھیں۔
اوہ، میں واقعی اتنا بیوقوف تھا۔
وہ  کنواری نہیں تھیں، اگر ہوتیں تو ان کا خون تو نکلتا، کچھ درد  تو ہوتا لیکن وہ تو صرف مزے ہی لیتی رہی تھیں۔
میرے سر میں طوفان چلنے لگے۔
میں حرامزادہ نہیں تھا۔ کیا فاطمہ بھی نہیں تھی؟ کیا وہ میری بہن ہی تھی اور حنا کی بری صحبت نے اس کو بگاڑ دیا تھا؟  میں عا م زندگی میں سادہ ہی تھا لیکن اب میرا دل کر رہا تھا کہ ان لڑکیوں سے خوب بدلہ لوں۔ لیکن کیا بدلا لوں۔ جو میں ان کے ساتھ کر سکتا تھا وہ ہی تو ان کو سب سے زیا دہ پسند تھا۔
میرے ہا تھ پیر ٹھنڈے ہو گئے تھے اور مجھے کسی بھی طریقے سے اس کا بدلہ لینا تھا۔ میں غلط نہیں تھا مگر یہ کیا ہوا تھا میرے ساتھ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بھی سیکسی لڑکی میرے ساتھ رابطہ کر سکتی ہے
  aapkapyara@hotmail.com
پر۔


میں غلط نہیں تھا مگر....Part 1

اب  وہ بالکل ننگی ہو چکی تھی۔ اس کا پورا جسم میرے سامنے تھا۔میں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور اسکے پیٹ  کو چھونے لگا۔ اس کو اب مزہ آنے لگا تھا۔  وہ چاہتی تو ماچس لے کر واپس جا سکتی تھی۔ مجھے لگا وہ خود بھی یہی چاہتی ہے کہ میں اس کی جوان ٹانگوں کے درمیان ہا تھ لگاؤں اور  اس کو مسلوں۔ میں گم سم کھڑا تھا۔
’میں ماچس مانگ رہی تھی آپ سے۔ آپ کن خیالوں میں کھو گئے؟‘ اس کی آواز مجھے حقیقی دنیا میں لے آئی۔ اس نے ہلکے گلابی رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور گلابی دوپٹہ اس کے گلے میں تھا۔ اس کی قمیض کا گلہ اتنا تھاکہ سینے کی گولائیاں بالکل نظر نہیں آ رہی تھی۔ میں نے اپنے دماغ میں ہی اس کو ننگا کیا تھا اور اس کے پیٹ کو چھو لیا تھا۔ یقینا اس کو لگا ہو گا کہ میں اس کو گندی نظر سے دیکھ رہا ہوں۔ کم از کم مجھے تو یوں ہی لگا کیونکہ اس نے فورا ً اپنے دوپٹے کو گلے پر پھیلا لیا۔
’وہ، دراصل، میں سوچ رہا تھا....‘ میں نے رک رک کے کہا۔  ’کہ ماچس کدھر پڑی ہو گی؟‘
’ماچس تو کچن میں ہی ہوتی ہے نا۔‘ وہ لوگ سامنے والے گھر میں آج ہی شفٹ ہوئے تھے۔ اس نے اپنا نام حنا بتایا تھا۔ ان کے ابا نہیں رہے تھے اور بس وہ  تین بہنیں اور ان کی امی ہی گھر کے کل افراد تھے۔
’آپ اپنی امی سے کہہ دیں وہ دے دیں گی۔‘ حنا نے تجویز دی۔
’میری امی تو فوت ہو چکی ہیں۔ بس  فاطمہ اور اماں بی بی گھر میں ہوتی ہیں۔‘ میں نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔ ’اور اس  وقت فاطمہ کے کالج میں جمناسٹک کا مقابلے میں شرکت کر رہی ہے  اور اماں بی بی بازار سے سودا سلف لینے گئی ہیں۔‘ یہ کہہ کر مجھے غلطی کا احساس ہوا کہ مجھے گھر میں اکیلا پا کر وہ تو فوراً واپس چلی جائے گی۔لیکن اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
’اچھا میں سا تھ والے ہمسایوں سے لے لیتی ہوں‘ وہ یہ کہہ کر پلٹنے ہی والی تھی کہ میں نے آخری امید کے
طور پر کہا۔
’آپ خود ماچس دیکھ لیں کچن میں۔‘ میں جانتا تھا کہ وہ یہ جاننے کے بعد کے میں گھر پر اکیلا ہوں اور للچائی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا،  وہ اندر نہیں آئے گی۔
’نہیں میں سا تھ والو ں سے لے لوں گی، آپ کو زحمت دی میں نے‘۔ اس نے کہا۔
’نہیں، نہیں اس میں زحمت کی کیا بات ہے۔ آئیے نا‘۔ میں دروازے سے پیچھے ہٹ گیا۔
وہ  سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کرے لیکن حیرت انگیز طور پر وہ گھر میں داخل ہو گئی۔ وہ ہو گی تو اٹھارہ بیس سال کی لیکن لگتی سولہ سال کی تھی۔اس کے کپڑے اس کی جسم پر بہت سج رہے تھے۔ اس نے دوپٹہ سر پر نہیں اوڑھا تھا بس گلے میں ہی لیا ہو ا تھا۔  میں نے اس کو گلے لگایا تو کتنا ہی مزہ آئے گا۔ اس کی چھاتیاں کتنی بڑی ہیں۔۔
’کچن کدھر ہے؟‘ اس نے مجھ سے مڑ کر پوچھا اور میں ایکدم ٹھٹک کے رک گیا۔ میرا  دل دھڑ ک اٹھا  کہ جب وہ مڑی تو اس کی چھاتیوں کے ابھار تقریباً میرے سینے سے چھو ہی گئے۔
’جی،  سامنے دائیں طرف۔‘ میں نے کہا اور نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظراس کے سینے پر تھی۔  اس کو پھر احسا س ہواکہ میں اس کے ابھاروں کو دیکھ رہا ہوں اور اس نے دوبارہ دوپٹہ درست کیا۔ وہ آگے کو مڑی اور کچن کی طرف بڑھی۔
میں اس کے پیچھے ہی کچن میں پہنچ گیا اور میری نظریں اس کے چوتڑوں پر تھی۔ دل کرتا تھا کہ ان پر ہاتھ پھیروں مگر ہاتھ آگے نہ بڑھ سکے۔
’ادھر کیبنٹ میں دیکھیں۔‘میں منمنایا۔اس کی بہادری دیکھ کر میں جہاں خوش تھا وہیں تھوڑا پریشان بھی تھا۔وہ میری گندی نظروں سے آگاہ تھی لیکن اس کے باوجود اندر آ گئی تھی۔ وہ بھی تو عمر کے اس حصے میں تھی جس میں سب کا دل ہی کچھ کرنے کو چاہتا ہے۔وہ بھی چاہتی تھی کہ میں اس کے سینے کو چھوؤں اوراس کی گولائیوں سے لطف اندوز ہوں۔  یا یہ میری ہی گندی سوچ تھی۔میں جانتا نہیں تھا مگر اس کا ایک ہی طریقہ تھا کہ میں اس کے سا تھ تھوڑا بے تکلف ہو جاتا۔
’آپ کے کپڑے بہت اچھے  لگ رہے ہیں۔‘  مجھے لگا کہ شاید وہ برا منا جائے گی کہ میں اس کے ساتھ زیادہ ہی فری ہو رہا ہوں۔
’واقعی۔ آپ کو اچھے لگے۔رابعہ کہہ رہی تھی کہ بالکل اچھے نہیں لگ رہے۔ میں اس کو بتاؤں گی۔ اوہ میں آپ کو بتانا بھول گئی کہ رابعہ میری چھوٹی بہن ہے اور سعدیہ میری بڑی بہن ہے۔ ہم جب انارکلی گئے تھے نا، تب ہی ہم نے لیے تھے یہ کپڑے۔۔۔‘مجھے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ لڑکیاں اپنے کپڑوں کے بارے میں اتنی جذباتی ہوتی ہیں۔ وہ بولتی جا رہی تھی اور میں سنتا جا  رہا تھا۔ میری نظریں کبھی اس کے سینے پر ٹھرتیں کبھی اس کے ہونٹو ں پر اور کبھی اس کے بالوں پر۔اس نے مجھے اپنے سارے کپڑوں کی تفصیل بتائی کہ کب لیے اور کب سلوائے اور کہاں سے۔مجھے اس کی ساری باتیں بہت اچھی لگ رہی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ وہ بولتی رہے اور میں اس کو دیکھتا رہوں۔
’آپ مجھے اپنے سارے کپڑے پہن کر دکھائیے گا میں آپ کو بتاؤں گا کہ کون سے اچھے ہیں اور کون سے نہیں۔‘  میرا مقصد تھا کہ اس کے ساتھ میر ا تعلق بنا رہے اور وہ دوبارہ بھی آئے۔  وہ سمجھی کہ شاید میں اس کے کپڑوں میں دلچسپی لے رہا تھا۔ میری دلچسپی تو ان چیزوں میں تھی جو  ان  بدبخت کپڑوں نے چھپا رکھی تھی۔
’آج نہیں پھر جب کسی دن امی گھر پر نہیں ہو ں گی تب میں آپ کو دکھاؤں گی کپڑے پہن کر۔‘ میرے تیر نشانے پر لگے تھے۔
’اوہ میں تو بھول ہی گئی کہ میں تو ماچس لینے آئی تھی۔‘ اور پھر اس نے کیبنٹ سے ماچس لی اور چلی گئی۔
میں گم سم کھڑا اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ مجھے امید تھی کہ وہ دوبارہ آئے گی۔
کچھ دن پہلے تک میں بھی بالکل  عام لڑکا تھا۔ مجھے بھی صرف پڑھائی میں دلچسپی تھی  لیکن سٹور کو صاف کرتے ہوئے مجھے کچھ خط ملے۔ ان خطوں نے میری زندگی بدل دی۔ اگر اماں بی بی پڑھی لکھی ہوتی تو شاید وہ خط وہاں نہ پڑے ہوتے۔ ان خطوں کو پڑھنے کے بعد اب میں کوئی عام لڑکا نہیں تھا۔ میری بہن میری بہن نہیں تھی۔قانونی کاغذوں میں کچھ اور تھا اور اصل حقیقت کچھ اور تھی۔ میں مختصراً یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے ابا میرے اباہی تھے لیکن میری امی میر ی امی نہیں تھیں کیونکہ جب میرے ابا کراچی میں تھے تو ان کی ایک خاتون سے دوستی ہو گئی اور وہ خاتون میری ماں تھی۔میں اپنی اصل ماں کا نام تک نہ جانتا تھا۔ ان کا نام ان خطوں میں ہمیشہ انتہائی غلط الفاظ میں لیا گیا تھا۔  اس سارے چکر میں میری بہن پیدا ہوئی تو ابا نے اس کو اپنی بیٹی ماننے سا انکا ر کر دیا اور آخر میری بہن کی ماں، یعنی میر ی قانونی ماں نے بھی اعتراف کر لیا کہ اگر ابا دوستیاں کر سکتے تھے تو وہ بھی کہیں سے اپنی خواہشات کی تسکین کر سکتی تھی۔ اور اس ساری بحث کا نتیجہ بڑا بھیانک نکلاکہ ابا نے خود کشی کی دھمکی دی اور میر ی قانونی ماں نے اس کو رد کر دیا۔ خط تو اس کے آگے خاموش تھے مگر میرے دماغ نے حساب لگایا کہ ابا نے خود کشی کر لی اور پھر اس احساس جرم کی وجہ سے میری قانونی ماں نے بھی اپنی جان لے لی۔ میں نجانے کیسے اس گھر تک پہنچ گیا اور اماں بی بی، جو  یا تو ابا کی کوئی دور کی رشتہ دار تھیں یا  وفادار ملازمہ، انھوں نے ہمیں پالا تھا۔ ہمارا گھر کافی بڑا تھا اور اوپر کے پورشن سے کافی کرایہ آجاتا تھا۔ اماں بی بی کا بھی دنیا میں کو ئی اور نہیں تھا اور ہمارا بھی۔
میں بی اے سے انہی دنو ں فارغ ہوا تو بوریت سے بچنے کے لیے اماں بی بی کے کہنے پر گھر کی صفائی پر لگ گیا اور پھر مجھے وہ خط مل گئے۔ میں انتہائی دکھی ہو گیا۔ میری زندگی کی سار ی تصویر میرے سامنے دھندلی پڑنے لگی۔ سارا معاشرہ سارا علم اس نئی بات کے سامنے بکھر گیا۔ میں تو اپنے آپ کو کچھ اور ہی سمجھتا تھا۔ میں تو اپنے آپ کو یتیم سمجھتا تھا، مسکین سمجھتا تھا مگر میں تو کچھ اور ہی تھا۔ ایک ایسا لفظ جو کو ئی بھی اپنے بارے میں استعمال نہیں کرنا چاہتا۔میں یہ کیسے مان سکتا تھا کہ میں ایک ’حرامزادہ‘ تھا۔  شاید یہ خط غلط کہہ رہے تھے۔ میں عجیب شش وپنج میں پڑ گیا۔ اماں بی بی نے ہمیشہ کہا تھا کہ میں اپنے ہاتھو ں سے فاطمہ کی ڈولی رخصت کروں گا۔ لیکن اگر کسی کو پتہ لگ گیا کہ ہم کیا ہیں تو کیا ہو گا۔فاطمہ کو بھی بتانا ہو گا کہ ہم پیچھے سے کیا ہیں۔ کیا فاطمہ سمجھ پائے گی۔ اور پھر میں نے وہ سارے خط واپس اسی لوہے کے صندوق میں رکھ دیے اور چند دن بعد فاطمہ سے کہا کہ وہ سٹور صاف کر دے۔میں نے فیصلہ فاطمہ پر چھوڑ دیا کہ وہ ان خطوں کا کیا مطلب نکالتی ہے۔
اپنے بارے میں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں تو پریشانی کی حد کو پہنچ گیا۔  غالب نے کہا تھا
    ؎ مشکلیں پڑیں مجھ پہ اتنی کہ آساں ہوگئیں
اس کے مصداق میں بھی چند ہی دنوں میں دنیا کے سارے نئے مطالب سے آگاہ ہو گیا۔کیا تھا اتنی مشکلات سے بچنے کا طریقہ؟ کو ئی بھی نہیں۔ میری زندگی کی یہ چیزیں میرے پیدا ہونے سے پہلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ میں اپنی ماں کو جانتا بھی نہیں تھا۔ میں نے اپنے ہوش میں ان کو دیکھا بھی نہ تھا۔ وہ زندہ تھی یا مر چکی تھی، مجھے پتہ نہیں تھا۔ میں اپنے خول میں اس قدر بند ہو سکتا تھا کہ میں کسی سے کوئی تعلق ہی نہ رکھتا۔ کہتے ہیں کہ جوان لوگ اپنے مسائل کے انوکھے حل ڈھونڈ کر زندگی کی حرارت کو کم نہیں ہونے دیتے اور زیادہ عمر کے لوگ محض اس لیے زندگی کی حرارت کو کھو دیتے ہیں کہ وہ ماضی کی زندگی کے تجربات  میں ہی تمام مسائل کا حل ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ زندگی کی حرارت درحقیقت صرف تبھی قائم رہ سکتی ہے جب ہم کچھ ایسا کرنے پر تل جائیں کہ جو ہمارا دل چاہتا ہو۔ میں نے اپنے آپ کو تمام غلط سوچوں اور غلط کاموں سے بچا کر رکھا تھا۔ مگر اب کیا فائدہ؟ میرا  بر ا  ہونا پہلے سے ہی طے تھا۔ میری پیدائش سے بھی پہلے۔
مجھے یقین تھا کہ میں غلط نہیں ہوں اور نہ ہی فاطمہ۔ مگر ہماری باتوں پر کون یقین کرتا۔ یہ بہت آسان تھا کہ ہم وہ خط پھاڑ کر پھینک دیتے۔ لیکن ہم تو سچ جانتے تھے۔ ہم ہمیشہ اس شک کا شکار رہیں گے کہ کل کسی کو پتہ چل گیا تو۔یہ شک زیادہ تکلیف دہ تھا۔
میری اداسی بڑھتی گئی اور حد سے بڑھ گئی۔ اور پھر میرے ذہن میں آنے لگا کہ اگر میں زندگی سے بھر پور لطف اندوز ہو سکوں تو میری اس اداسی کا علاج ممکن ہے۔ میں تو پہلے ہی اس معاشرے کے تمام اصول وضوابط سے باہر ہوں۔ میں اس معاشرے کے ٹھیکیداروں کو جواب  نہیں دے سکتا تھا  اور میرے ماتھے پر یہ داغ ابدی تھا۔
فاطمہ مجھ سے بہادر نکلی۔ وہ  تین دن تک مجھے پریشان نظر آئی اور پھر میرے پاس آئی۔
’بھا ئی، مجھ سے کون شادی کرے گا؟ کیا  فائدہ اس سب جھوٹ کا جو اماں بی بی نے ہم  دونوں کو بچپن سے سنا رکھا ہے؟‘یہ کہہ کر اس نے تمام خط میرے سامنے بستر پر پھینک دیے۔
میں کچھ نہ بولا۔ کچھ کہنے کو تھا بھی نہیں۔
وہ اٹھ کر چلی گئی۔مجھے لگا کہ  اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میرے ذہن نے ایک طرح کی بغاوت کر دی تھی۔ میں ہر اس چیز کو غلط کہنے لگا تھا جس کو میں پہلے ٹھیک سمجھتا تھا۔ مجھے یہی ایک بات سچ لگتی تھی کہ لوگ مجھے برا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ کو ئی جانتا بھی نہ تھا کہ میں کیوں پریشان تھا،  میں کیوں باغی ہوتا جا رہا تھا۔
’یہ لڑکا تو ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے، اے فاطمہ تو ہی سمجھا اس کو۔‘ اماں بی بی نے فاطمہ کو کہا جب میں نے اماں بی بی کوچینل تبدیل کرنے سے انکار کیا  اور ٹی وی پر ایک مغربی فلم دیکھتا رہا جس میں لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو ہونٹوں پر بوسہ دے رہے تھے۔  ان کا کہنا تھا کہ بہن کے سامنے یہ مت دیکھو، یہ بے حیائی ہے۔
’پھر کیا ہوا اماں بی بی، لڑکا اور لڑکی آپس میں پیار ہی تو کر رہے ہیں، کسی کا قتل تو نہیں کر رہیا۔دیکھو عمران دیکھو۔‘ فاطمہ نے دکھی سے لہجے میں کہا۔
’کس قدر بیہودہ باتیں کرنے لگی ہو فاطمہ۔  آج کل کی تو ساری نسل ہی خرابی کی طرف جا رہی ہے۔ کچھ کام کاج تو کرتے نہیں اور ٹی وی پر بے حیائی دیکھتے رہتے ہیں۔‘ یہ کہہ کر اماں بی بی وہاں سے اٹھ گئیں۔
’میں نے کیا  غلط کہا۔بس ٹیوشن ہی پڑھا سکتے ہیں بھائی اس وقت۔ اور کوئی کام اتنی آسانی سے نہیں ملتا۔‘ فاطمہ نے اماں بی بی کو پورا جواب دیا۔
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اماں بی بی خود بھی تو منافقت کر رہی ہیں اور خود بھی سچ کو چھپا کر جھوٹ کو فروغ دے رہی ہیں۔  آخر کو ہر کوئی جھوٹا ہے، کو ئی زیا دہ اور کوئی کم۔
میرے خیالات فاطمہ کے بارے میں بھی کچھ عجیب سے ہو رہے تھے، اگر وہ میری بہن نہیں ہے تو وہ بھی ایک لڑکی ہی ہے مگر کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اچانک میر ی پوری دنیا الٹ دی گئی تھی۔ میں کیا کرتا۔اور پھر اگلے ہی دن حنا ماچس لینے آگئی۔
ویسے بھی میرے ذہن میں ہر وقت لڑکیاں ہی چھائی رہنے لگی تھی۔ میں کیا کر سکتا تھاا۔کہتے ہیں کہ خالی دماغ شیطان کر ڈیرہ  بن جاتا ہے۔ میرے پاس روپے پیسے تو تھے نہیں کہ کہیں باہر جاتا۔ میرے ذہن میں فاطمہ بار بار آجاتی تھی اور پھر مجھے یہ بھی لگا کہ فاطمہ بھی اسی طریقے سے سوچ رہی ہے جیسے میں سوچ رہا تھا۔ اس نے کل مجھے پہلی باربھائی کی بجائے عمران کہا تھا۔ میرا دل نہیں مانتا تھا کیونکہ میں نے ہمیشہ اس کو بھائی کی نظر سے دیکھا تھا۔ میرا دماغ روز بروز اس کو کسی لڑکی کی طرح دیکھنے لگا تھا۔ میں اس کے سینے کے ابھاروں کو دیکھتا تو مجھے عجیب سا مزہ آنے لگتا۔ کچن میں وہ کام کرتی تو میں اس کی کمر کو دیکھتا اور جب وہ میرے سامنے کھانا رکھنے کو جھکتی تو اس کی چھاتیوں کی ہلکی سی جھلک میرے لیے خوشگواری کا باعث ہونے لگی۔ فاطمہ نے بھی اس طریقے سے دوپٹہ لینا چھوڑ دیا تھا جیسے مشرقی لڑکیا ں بھائیوں کے سامنے لیتی ہیں۔
ایسے میں مجھے حنا بہت اچھی لگی۔ میں شاید اس کو پیار کرنے لگا تھا یا یہ صرف ایک ہوس تھی۔ مجھے لگا کہ فاطمہ کی بجائے حنا  میں دلچسپی لینا بہت بہتر ہے اور ہو سکتا ہے کہ فاطمہ مجھے بھائی کے علاوہ کسی اور روپ میں دیکھنا پسند نہ کرے۔ مجھے لگا کہ میں اپنی نظروں میں تو اچھا رہوں گا اگر میں نے فاطمہ کے علاوہ  کسی دوسری لڑکی میں دلچسپی لی۔  حنا معصوم تھی اور اسے کچھ پتہ نہیں تھاکہ میری دنیا الٹ چکی ہے اور میرے لیے اب اچھائی اور برائی کے تقاضے کچھ اور ہی ہیں۔
دنیا عجیب جگہ ہے۔ یہاں سب کچھ بدل جاتا ہے۔ کل تک جو میری بہن تھی آج وہ میرے لیے صرف ایک اور لڑکی تھی۔وہ لڑکی جو کل تک میر ے لیے تھی ہی نہیں آج میری جان تھی۔ اور میں جو کل تک ایک عام لڑکا تھا، آج حرامزادہ تھا۔ میں کل تک جو چیزیں سوچ بھی نہیں سکتا تھا آج وہ میرے شب وروز کو چلانے لگی تھی۔ننگی لڑکی کو دیکھنے کی خواہش اور اس کو کچھ کرنے کی خواہش ہر چیز پر چھا گئی تھی۔شاید  انفارمیشن ہی ہماری زندگیوں کے فیصلے کرتی ہے۔
دو تین دن گذر گئے۔ حنا نہیں آئی۔ میں ہر روز صبح سے شام تک اس کا انتظار کرتا۔ اس دوران میں نہ چاہتے ہوئے بھی فاطمہ نظر آتی تو اس کی چھاتیاں مجھے اپنی طرف کھینچتی اور میری نظر ان سے چپک جاتی۔ فاطمہ بھی پہلے کی طرح نہیں رہی تھی۔ شاید وہ بھی لڑکو ں کے بارے میں زیادہ سوچنے لگی تھی۔ وہ بھی ٹی وی پر مغربی پروگرام میرے ساتھ دیکھنے لگی تھی اور جب کو ئی لڑکا کسی لڑکی کو پکڑ لیتا تو بھی وہ بیٹھی دیکھتی رہتی جبکہ پہلے کبھی ایسے ہوتا تو وہ فوراً اٹھ جاتی تھی۔ اماں بی بی  بولتی رہتی تھی اور تب بھی وہ ان کی بات نہیں سنتی تھی۔ صبح جب میں واش روم میں جانے کے لیے اٹھا تو واش روم کا دروازہ پورا کھلا تھا  اور اندر فاطمہ نہا رہی تھی۔ میں ایک دم رک گیا، اس کی آنکھیں بند تھی اور وہ شاور کے بہتے پانی کا مزہ لے رہی تھی۔ وہ بچپن میں ڈر جایا کرتی تھی اس لیے کبھی اپنے کمرے کا یا واش روم کا دروازہ بند نہیں کرتی تھی لیکن اس طرح سے پورا کھلا بھی کبھی نہیں چھوڑتی تھی۔ اس کا پتلا جسم اور بڑی بڑی چھاتیاں  بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ دل بہت کیا کہ اس کو دیکھتا رہوں پر ایک ہی نظر کے بعد میں وہا ں سے ہٹ گیا اور باہر والے واش روم میں چلا گیا۔  یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ میری بہن ہے اور اگر اس کو دیکھا تو میرے اوپر کوئی برا اثر ہو جائے گا۔ دل تو چاہتا تھا مگر  ہمیشہ اس کو بہن کی نظر سے دیکھا تھا اب کیسے اسے اپنی محبوبہ بنا لیتا۔ واپس آکر لیٹا تو میرے خواب میں فاطمہ نہا رہی تھی اور میں اس کے ساتھ کپڑے اتار کر نہانے لگا۔  ’بھائی باہر نکلو، کوئی بہنو ں کے ساتھ بھی نہاتا ہے کبھی۔‘ اور میر ی آنکھ کھل گئی اور اتنا  خوبصورت خواب ختم ہو گیا۔ کا ش خواب میں یہ پتہ چل جاتا کہ یہ خواب ہے  تو میں اس کو کہتا ’مجھے اپنی چھاتیوں کو ہا تھ لگانے دو،  انہیں دبانے دو، یہ تو صرف خواب ہے، کسی کو پتہ نہیں چلے گا،کوئی کچھ نہیں کہے گا۔‘  لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ خواب میں خواب بھی حقیقت کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ میرا دل میرے خواب میں مجھے واش روم میں نہاتی ہوئی فاطمہ کے پاس لے گیا اورمیرا  دماغ زمانے کے رائج اصولوں کے مطابق مجھے  اس سہانے خواب سے باہر لے آیا۔لاکھ دل کرنے کے باوجود یوں لگتا تھا کہ وہ میر ی بہن ہے۔مجھے لگا کہ یہ دل اور دماغ کی جنگ تو میر ی جان لے کر ہی رہے گی۔
دوپہر کو جب فاطمہ کالج سے نہیں آئی تھی اور اماں بی بی حسب معمول قیلولہ کر رہی تھی، باہر کا دروازہ کھٹکا۔ میر ے دل نے کہا کہ یہ حنا ہے اور میں بھاگا بھاگا دروازہ کھولنے پہنچا۔ سامنے دیکھا تو ایک بھکاری بھیک مانگنے کھڑا تھا۔
’معاف کرنا بابا۔‘میں کہہ کر واپس پلٹ  آیا۔ ابھی برآمدے میں ہی تھا کہ دروازہ پھر کھٹکا۔میں غصے میں پلٹا اور دروازہ کھول کر اس سے پہلے کہ گالیوں کا طوفان میرے منہ سے نکلتا، میں نے دیکھا کہ نیلے رنگ کے خوبصورت سے جوڑے میں ملبوس حنا باہر کھڑی تھی۔ دروازہ کھولتے ہی وہ  ایک قدم اندر آگئی۔
’میں کپڑے لے آؤں، آپ کو دکھانے کے لیے۔‘اس نے بات کا سلسلہ یوں شروع کیا کہ جیسے اس دوران کئی دن نہیں بس چند منٹ گذرے تھے۔ وہ اس لہجے میں بات کر رہی تھی جیسے ہم پرانے دوست ہوں۔
’نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔،مم  میر ا مطلب ہے کیو ں نہیں۔بس ایک مسئلہ ہے  اماں بی بی گھر پر ہیں، اگر ان کی آنکھ کھل گئی تو وہ برا مان جائیں گی، وہ لڑکے لڑکیوں کا ملنا ملانا پسند نہیں کرتی۔‘ میں نے مسئلہ بیان کر دیا۔میر ا ارادہ تھا کہ جب شام کو اماں بی بی کسی پڑوسن سے ملنے گئی ہوں گی تو حنا کو بلا لوں گا اور پھر جس قدر ہو سکا مزے کروں گا۔
’ارے یہ تو کوئی مسئلہ نہیں، میرے گھر میں اس وقت کوئی نہیں۔ سارے بازار گئے ہیں، میں سر درد کا بہانا بنا کر رک گئی تھی، آپ میر ے گھر آ جائیں۔‘اس نے یہ کہہ کر میرا سارا مسئلہ حل کر دیا۔ مجھے اس میں اشارہ لگا کہ اس نے مجھ سے ملنے کے لئے  اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولا۔اس کا مجھے اکیلے میں اپنے گھر بلا لینے کا کیا مطلب تھا؟ کیا وہ بھی وہ سب کچھ ہی چاہتی تھی؟ میں اور وہ ایک ہی چیز چاہتے تھے؟ وہ معصوم تھی، بھولی تھی،کم عمر تھی مگر کیا وہ اتنی ہی بیوقوف تھی کہ ایک لڑکے کی اپنی چھاتیوں پر نظر کے مطلب کو نہ سمجھ سکے؟ میں نے یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کا مطلب کس نوعیت کا ہے، اچانک اپنا ہاتھ آگے کیا جیسے میں نے ایسا غیر شعوری طور پر کیا ہو۔
’یہ بات۔۔‘میں نے ہا تھ آگے بڑھایا۔
’یہ بات۔۔‘اس نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا۔ میں نے آہستہ سے اس کے ہاتھ کو پکڑ لیا  اور سرگوشی کے انداز میں کہا۔
’میں اماں بی بی کو بتا کر آیا کہ دوستوں کے سا تھ جا رہا ہوں اور میں اپنا پاجامہ بدل کر پینٹ پہن لوں۔‘میں نے واپس جانے کے لیے پیچھے مڑنا چاہا۔
’یہ پا جامہ ہی ٹھیک ہے اورآپ کیا اماں بی بی سے ڈرتے ہیں کیا؟‘اس نے اچانک سوال کر دیا۔
’نہیں، بس زمانے کا ایک ڈر ہے، کہیں مجھے کوئی غلط نہ سمجھ لے۔‘میں نے فوراً کہا۔ میں اب بھی کچھ خوف زدہ تھا، حالانکہ میں جانتا تھا کہ اب میر ی زندگی وہ نہیں ہے جو پہلے تھی۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھیتھا کہ اس کو اس بات کی سمجھ تھی کہ میں کچھ ایسا کر رہا ہوں جس میں ڈرنے کا امکان موجود ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ میں کسی سے ڈروں۔ میں اگر اماں بی بی یا کسی اور سے نہ ڈروں تو میں اس کے ساتھ کچھ ایسا کر سکتا تھا جو کوئی اور کرتے ہوئے ڈر جائے گا۔ سوال یہ تھاکہ کیا وہ چاہتی تھی کہ میں نہ ڈروں؟
 ’کیا تم نہیں چاہتی کہ میں کسی سے ڈروں؟‘میں نے سنجیدہ سا منہ بناتے ہوئے کہا۔ میں نے محسوس کیا کہ جب بھی معاشرے کے پکے اصولو ں سے ہٹنے کی کوئی کوشش کرے گا وہ تھوڑا سا تو ڈر محسوس کرے گا ہی اور اسی ڈر میں مزہ بھی ہے۔ جو کام بغیر ڈر کے ہو گا اس میں وہ مزہ نہیں، شاید میرے ابا بھی اسی قسم کی کسی خواہش کا شکار بنے ہوں گے۔
’نہیں میں نے بس ایسے ہی پوچھا تھا۔‘اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس کی مسکراہٹ یہ ہی کہہ رہی تھی کہ وہ مجھے بہادر ہی دیکھنا چاہتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلی ہی ملاقات میں میری نظریں اس کی ان جگہوں پر پہنچ گئی تھی جہا ں عام لوگوں کی نظریں جاتے ہوئے کتراتی ہیں۔
 ’میں بس اماں بی بی کو بتا کر آیا‘  میں اندر آیا  اور سوئی ہوئی اماں بی بی کو بتایا کہ میں دوستوں کے ساتھ باہر جا رہا ہوں۔ وہ نیند میں ہی کچھ بڑبڑائیں کہ جلدی واپس آجانا اور میں با ہر آ گیا۔
باہر تیز دھوپ تھی اور ہوا  یا بادل نام کو بھی نہ تھے۔ حنا کا منہ دھوپ سے سرخ ہو رہا تھا اور وہ مجھے اور بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔ سامنے والے گھر میں ہی تو جانا تھا، ہم ا یک لمحے میں حنا کے گھر کے اندر تھے۔صحن سے سیڑھیا ں اوپر جا رہی تھی۔
’ادھر آ جائیں میرے کمرے میں۔‘حنا نے کہا  اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہو ا اس کے کمرے  میں پہنچ گیا۔ٹی وی لاؤنج سے بھی سیڑھیاں اوپر کو جارہی تھی جیسے پرانی فلموں کے سیٹ ہوتے ہیں۔حنا کے کمرے میں ہر طرف کپڑے بکھرے ہوئے تھے جیسے کسی نے اپنے کپڑوں کو تیزی سے الٹا پلٹا ہو اور کچھ کپڑے  علحدہ پڑے ہوئے تھے۔
’چلیں میں کپڑے پہن کر آؤں گی اور آپ نے بتانا ہے کہ کون سے آپ کو اچھے لگے، ٹھیک ہے؟‘ اس نے ایسے کہا جیسے بچے کسی کھیل سے پہلے طریقوں کو واضح کرتے ہیں۔
’ٹھیک ہے۔‘ میں نے کہا جیسے میں یہ کھیل کھیلنے کو تیار تھا۔  میں اصل میں اس کھیل میں زیادہ مگن تھا جو اس کھیل کی آڑ میں کھیلا جا سکتا تھا۔
اس نے کپڑے اٹھائے،دوسرے کمرے میں گئی اور جھٹ سے  سبز رنگ کے سوٹ میں واپس آگئی۔
’کیسا ہے؟‘
’بہت اچھا‘۔
وہ پھر گئی اور سرمئی رنگ کے سوٹ میں واپس آئی جس میں سفید اور کالے رنگ کے پھول تھے۔
’بہت ہی اچھاہے۔‘اس رنگ میں اس کا رنگ اور بھی زیادہ سفید لگ رہا تھا۔
اس نے تقریباً دس سوٹ مجھے دکھائے جو مجھے ایک سے ایک زیادہ اچھے لگے اور میں نے ان کی تعریف کر دی۔ بھلا میری کیا مجال کہ کسی سوٹ کو برا کہوں اور پھر اس کے گھر سے نکل جاؤں، میری نظر میں مجھے اس کی صرف تعریف ہی کرنا تھی۔میں سکون سے بیٹھا تعریف کر رہا تھا۔ میں یہ بھول گیا کہ صر ف تعریف سے کھیل کی خوبصورتی،یعنی ہار کا  ڈر، ختم ہو جائیگی۔
’آپ کو تو میرے سارے ہی کپڑے اچھے لگ رہے ہیں، صحیح طرح سے دیکھ بھال کر بتائیں نا، صرف میرا دل رکھنے کے لیے نہیں۔‘وہ سٹپٹا کر بولی۔
’اچھا اب ایک ا یک چیز صحیح صحیح بتاؤں گا۔‘میں ہوش میں آگیا۔ مجھے لگا کہ اگر میں اچھا نہ کھیلا تو گیم سے آؤٹ بھی ہو سکتا ہوں۔ مجھے وہ واقعی اچھی لگ رہی تھی کیونکہ کپڑوں سے زیادہ میری توجہ اس چیز کی طرف تھی جو  ان  منحوس کپڑوں نے چھپا رکھی تھی۔
وہ جب کپڑے بدلنے کے لئے  دوسرے کمرے میں جانے لگی تو اس کو محسوس ہو ا کہ جتنے کپڑے لے کر وہ گئی تھی وہ سب تو وہ دکھا چکی ہے۔ وہ رکی اور اس نے نئے کپڑے منتخب کئے او ردوسرے کمرے میں جانے لگی۔پھر بولی۔
’میں یہیں بدل لیتی ہوں آپ آنکھیں بند کر لیں۔ ٹھیک ہے؟‘مجھے لگاکہ وہ گیم کے نئے اصول بنا رہی تھی، شائد وہ پرانے اصولوں سے تنگ آگئی تھی۔ یا شائد میں نے اچھی گیم نہیں کھیلی تھی۔ میرے لیے یہ گیم زیادہ اچھی تھی اور لاکھ دل چاہنے کے باوجود میں اس سے یہ نہیں کہ پایا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کرلی۔
’آنکھیں کھولنا نہیں جب تک میں نہ کہوں۔‘ اس نے تیزی سے کہا۔ میں نے ہلکی سی آنکھیں کھولی رکھیں تو وہ ڈانٹنے کے انداز سے بولی۔’میں پھر دوسرے کمرے میں چلی جاؤں گی۔‘
’اچھا اچھا،لو  اب بالکل بند ہیں۔‘میں نے سوچا آنکھیں کھول کر رکھنے کی یہ سزا تو مجھے قبول ہوتی اگر میں اس کو ایک دفعہ ننگا دیکھ لیتا۔میں نے آنکھیں بند کر لی۔
’اچھا اب کھولیں۔‘اس کی آواز آئی۔
اس نے کالے کپڑے پہنے تھے جن میں اس کو گورا بدن باہر جھانک رہا تھا۔ وہ گھومی تو میں نے دیکھا کہ وہ جلدی میں اپنی پچھلی زپ بند کرنا بھول گئی ہے۔
’ہوں، اس دفعہ تو میں ذرا غور سے دیکھوں گا۔‘میں اٹھا اور چلتا ہو اس کے پیچھے پہنچ گیا۔ اس کی گوری اور گداز کمر پر ہا تھ لگانے کو دل کر رہا تھا۔ میں نے کندھوں سے پکڑ کر اس کو گھمایا اور غور سے اس کی چھاتیوں کو قریب سے دیکھا کہ وہ کتنی ہی خوبصورت ہیں۔ پھر دوبارہ اس کو کندھوں سے ہی گھمایا اور کھیلی زپ میں سے عیاں اس کی کمر کو دیکھنے لگا۔ اس  نے ابھی تک کوئی اعتراض نہیں کیا تھا یا دوسرے لفظوں میں اس کو یہ گیم اچھی لگ رہی تھی۔ میں نے آرام سے اس کی کمر کو ہاتھ کی ہتھیلی لگائی اور بڑے آہستہ سے ہا تھ پھیرا۔ اس نے جب کچھ نہ کہا تو مجھے پتہ لگا کہ غلطی سے نہیں جان بوجھ کر اس نے زپ کھلی چھوڑی تھی۔ یہ سوچتے ہی میں اور بہادر ہو گیا اور میرا دل کیا کہ اس کی چولی کے ہک کو کھول دوں۔ اب میر ا عضوتناسل کھڑا ہو چکا تھا اور اس کے چوتڑوں کے ساتھ میں نے اس کو ہلکا ہلکا سا لگایا۔ میں نے پھر اس کو کندھوں کی بجائے کمر سے پکڑ کر سیدھا کیا اور ہلکا سا زور لگا کر اس کو اپنے قریب کیا۔ اب میر ا کھڑا ہوا  تیر اس کی شلوار کے اوپر سے اپنے نشانے پر تھا۔ اس کو محسوس ہو رہا ہو گا مگر وہ دیکھ رہی تھی۔ میں نے اپنا دائیاں ہاتھ اس کے سینے کے ابھاروں پر آرام سے پھیرا اور ان ابھاروں کی نرمی اور گدازپن کو اپنی روح میں اترتا ہوا محسوس کیا۔انداز ایسا تھا جیسے میں تو صرف کپڑے دیکھ رہا ہوں۔
’نہیں یہ ڈریس مجھے اچھا نہیں لگا۔‘ میں یہ کہہ کر واپس اپنی جگہ پر آگیا۔
’اچھا آپ اپنی آنکھیں بند کریں، میں آپ کو دوسرے پہن کر دکھاتی ہوں۔‘اس نے جلدی سے کہا۔
’چلو ٹھیک ہے۔‘  یہ گیم تو میر ی آخری امیدوں سے بھی اچھی کھیلی جا رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں سیکھ رہا ہوں۔
اب کی بار اس نے ہلکے سبز کپڑے پہنے،جو ایک لمبی قمیض تھی اور جب وہ گھومی تو زپ پھر کھلی تھی۔ میں نے دیکھ لیا تھا کہ اس نے جان بوجھ کر نیچے شلوار نہیں پہنی۔
’یہیں سے بتا دوں یا اچھی طرح دیکھ بھال کے جیسے پچھلی بار دیکھا بھالا تھا۔‘میں نے اپنی کارکردگی کے بارے میں جاننے کے لیے پوچھا۔ جوں جوں یہ گیم آگے بڑھ رہی تھی، میں زیا دہ مزے کے ساتھ زیادہ بہادر ہوتا جا رہا تھا۔ اس کا رویہ مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دے رہا تھا۔
’نہیں ایسے نہیں دیکھ بھال کے۔‘ وہ بولی۔
میں اٹھا اور اس کے قریب پہنچ گیا اور کہا۔
’اب تم آنکھیں بند کرو، میں اچھی طرح دیکھ لوں پھر بتاؤں گا تو آنکھیں کھولنا۔ ٹھیک ہے؟‘ میں نے بھی اب گیم کے اصول بنانے شروع کر دیے تھے۔
’ٹھیک ہے۔‘اس نے خوشی سے کہا اور آنکھیں بند کر لیں۔
میں نے اس کی کمر پر ہا تھ پھیرا اور ہا تھ کو کپڑوں پر پھیرتے ہوئے اس کی چھاتی کی طرف لے آیا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں لیکن اس کے لبوں پر ایک پیاری سی مسکراہٹ تھی جیسی جوان ہوتی ہوئی لڑکیوں کے ہونٹوں پر ہوتی ہے۔ میں نے اس بار اس کی چھاتی کے ابھاروں پر ہاتھ روک لیا اور دوسرا ہا تھ اس کی کمر سے سرکاتے ہوئے اس کے چوتڑوں کے اوپر لا کر روک دیا۔ میر ا  عضو تناسل پھر تن چکا  تھا اس اس کی سائیڈ کو چھونے لگا تھا۔میں نے اپنے پاجامے  سے اس کو آزاد کر دیا۔اس کے کپڑوں کے بجائے  میرا ڈنڈا اس کی جسم کے ساتھ لگنا چاہتا تھا۔ میں چلتا ہوا اس کے پیچھے چلا گیا اوراپنا ایک ہاتھ اس کی چھاتی کے ابھاروں پر رکھا اور ہلکا سا دبایا۔دوسرے ہاتھ سے میں نے اس کی لمبی سبز قمیض اوپر اٹھانی شروع کر دی اور اس کے چوتڑوں کو ننگا کر لیا اور اس کے چوتڑوں کے رخساروں کے درمیا ن میرے موٹے اور لمبے  عضو نے اس کو چومنا شروع کر دیا۔ میں بڑی دیر تک  ایسا کرتا رہا۔ حنا چپ چاپ آنکھیں بند کئے کھڑی رہی۔ میں نے پیچھے سے ہی ایک ہاتھ اس کی اندام نہانی کی طرف  لے گیا اور اس کے گھنے بالوں میں مجھے اس کے گیلے پن کا احساس ہوا۔ اس کو بہت مزہ آرہا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں اپنے  سخت پن کو اس کی نرمی میں گھسا دوں۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ میں نے تقریباً بیس منٹ اس سے یہ سارا کھیل کیا اور پھر اس کی قمیض چھوڑ دی جس نے اس کے ملائم چوتڑوں کو ڈھانپ لیا۔ میں اپنا عضو بھی پاجامے کے اند ر کر لیا اور اس کے سامنے آکر اس کے چھاتی کے ابھاروں پر ہاتھ رکھے اور ان کو مٹھیوں میں دو تین دفعہ بھینچا اور پھر چھوڑ دیا۔
’نہیں یہ کپڑے بھی اچھے نہیں، اب آنکھیں کھول لو۔‘میں نے فیصلہ سنا دیا۔
 ’میں آپ کو ایک اور پہن کر دکھاتی ہوں،  پھر آپ بتائے گا۔‘ اس نے بڑی خوش دلی سے فیصلہ قبول کر لیا جیسے و ہ اسی طریقے سے گیم کھیلنا چاہتی ہو۔
میں نے آنکھیں بند کر لیں۔
اس نے ایک ساڑھی پہنی اور مجھے آنکھیں کھولنے کو کہا۔
میں نے جب اس کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔اس نے پہلے ہی اپنی آنکھیں بند کر لی تھی۔ اس نے چولی بالکل ہی اتار دی تھی اور شفون کی ہلکی سی ایک ساڑھی پہن لی تھی۔میر ا دل کر رہا تھا کہ اس کی آنکھیں بند ہی رہیں اور میں اس کو سب کچھ کر دوں۔
میں اٹھ کر اس کے قریب پہنچا اور اس کے ننگی کمر پر ہا تھ پھیر ا اور ایک بوسہ بھی دیا۔ میں اس کی ننگی کمرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنے ہاتھ کو بغیر چولی والے پستانوں تک لے آیا اور اس کے دائیں ابھار کواپنے ہاتھ میں لے لیا اور ساڑھی کا پلو نیچے گرا دیا۔ اب وہ اوپر سے بالکل ننگی تھی۔ میں نے اس کے نارپستان کو انگوٹھے اور انگلی کے درمیا ن لیا اور ہلکا سا دبایا تو حنا کے ہونٹوں سے ’سی‘کی آواز نکل گئی۔ میں اس کے ننگے سینے کو دیکھتا رہا اور پھر اس کے پستانوں کے اوپر تنے ہوئے گلابی نپل کو منہ میں لے لیا اور چوسنے لگا۔میں نے پہلے ایک کو چوسا اور پھر میں دوسرے کو چوسنے لگا۔ میر ا دل کر رہا تھا آج سارا دن حنا کی چھاتیوں کو چوستا رہوں۔ اس نے اپنے ہاتھ میرے سر پر رکھ لئے اور سر کو اپنی چھاتی پر دباتی کہ جیسے اس کو اس سے بہت مزہ آرہا ہو۔
’ڈنگ ڈونگ۔‘اس وقت گھنٹی کی یہ آواز دنیا کی سب سے بری آواز لگی۔
’میرا خیال ہے امی لوگ آگئی ہیں۔‘حنا بھی چونک اٹھی۔ ہمارے اس کھیل میں تین گھنٹے گذر گئے تھے۔ اس نے جلدی سے کپڑے پہنے۔ میں نے اس کی چولی پیچھے سے بند کی۔
’آپ واش روم میں چھپ جائیں، جب راستہ صاف ہو گا تو میں آپ کو باہر نکال لو گی۔‘اس نے جلدی سے کہا اور کمرے سے نکل گئی۔
اچھی بات یہ تھی کہ اس کا کمر علحدہ تھا۔ میں نے جا کر واش روم کی اند ر سے چٹخنی لگا لی۔ میں نے اپنے عضوتناسل کو آزاد کیا اور اس کو ملنے لگا۔ حنا کا ننگا اور گورا بدن اب بھی جیسے میر ے ساتھ ہی تھا۔ مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ میں اس کی اندام نہانی، جس کا زیادہ مزیدار نام عام غیر ادبی لوگوں نے پھدی رکھاہے،  کے منہ کے قریب سے ہو کے آیا تھا۔ سیانے کہتے ہیں،  یار  زندہ  صحبت  باقی۔لیکن یہ سوچ کہ کتنی خوبصورت چیز کے قریب سے ہو کر آیا تھا، مجھے دیوانہ کر رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں میرے عضوتناسل نے  گاڑھے  اچھلتے ہوئے  سفید مادے کو خارج کیا اور بجلی کی ایک طاقتور  رو میرے سروپے میں دوڑ گئی۔